Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین چہرہ چھپائیں یا نہیں ان کی مرضی: طالبان ترجمان سہیل شاہین

افغان طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ پاکستان کا طالبان پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔
بدھ کو اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں طالبان پر پاکستان کے اثر و رسوخ اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے سوال پر سہیل شاہین نے کہا کہ ’یہ ماضی کا جھوٹا الزام ہے جس کو ہم نے گذشتہ 20 سالوں میں بار بار مسترد کیا ہے۔‘
ہم اپنے فیصلے اپنے قومی مفادات اور اقدار کی روشنی میں کرتے ہیں۔‘
طالبان کا افغانستان کے صوبوں پر تیزی سے قبضے کے بعد افغانوں کی جانب سے مظاہروں میں پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام لگایا گیا تھا اور پاکستان پر پابندیوں کا ہیش ٹیگ بھی چلایا گیا۔
صدر اشرف غنی، نائب صدر امراللہ صالح اور ان کی کابینہ کی جانب سے پاکستان پر وقتاً فوقتاً طالبان کی مدد کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں جن کو پاکستان مسترد کرتا رہا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی اور ان کے رہنماؤں کی پاکستان حوالگی سے متعلق سوال پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی افغانستان سے کسی دوسرے ملک میں کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔
’افغانستان سے کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی پر ہماری پالیسی واضح ہے۔ اگر کوئی کارروائی کرتا ہے تو یہ ہماری پالیسی کے خلاف ہوگا۔‘
کابل پر کنٹرول کے بعد طالبان نے مرکزی بینک سمیت اہم وزارتیں اپنے کمانڈروں کو دے دی ہیں۔ اس سوال پر کیا طالبان کے علاوہ افغان سیاستدانوں کو بھی اہم عہدے دیے جائیں گے تو سہیل شاہین نے بتایا کہ ’حکومت میں شمولیت کے لیے اسلامی امارت کے رہنماؤں کے ساتھ دیگر افغان بھی ہوں گے۔‘
کیا آنے والی حکومت بھی طالبان کی گذشتہ حکومت جیسی ہوگی یا اس میں صدر یا وزیراعظم کی ماتحت حکومت ہوگی؟

سہیل شاہین نے کہا کہ دارالحکومت نئی حکومت کا بھی دارالحکومت کابل ہی رہے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال پر افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’نئی حکومت تمام افغان نمائندوں پر مشتمل ہوگی تاہم ہو سکتا ہے کہ نئی حکومت طالبان کے سابق دور حکومت کی طرح ہو جس میں سربراہ رئیس الوزرا ہوں گے۔‘
’ہم ایک اور آئین بنائیں گے۔ کابل حکومت کا جو پہلے کا آئین تھا وہ قبضے کے اندر بنایا گیا تھا۔ ابھی ضرورت ایک ایسے آئین کی ہے جو آزاد افغانستان میں بن جائے اور وہ افغان عوام کے مفاد میں ہو۔ مرد و خواتین سب کے حقوق اس میں درج ہوں گے۔‘
سہیل شاہین کے مطابق افغانستان کے لیے ایک نئے آئین کی ضرورت ہے جس کو آزاد افغانستان میں بنایا جائے گا جس میں سب کے حقوق درج ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی شکل واضح ہے جس میں تمام افغان پارٹیاں شامل ہوں گی جس کے لیے افغان سیاستدانوں سے مشاورت ہو رہی ہے۔ ایسی حکومت چاہتے ہیں جس میں افغان عوام کے نمائندے ہوں۔ حکومت کی تشکیل میں زیادہ وقت لے لیا گیا ہے لیکن امید ہے کہ جلد اعلان ہو جائے گا۔
طالبان کے گذشتہ دور حکومت میں خواتین پر سخت پابندیاں عائد تھیں اور وہ پردے کی بھی پابند تھی جس کی وجہ سے اب بھی خواتین اس تذبذب کی شکار ہیں کہ طالبان کی حکومت میں خواتین گھر سے کس قسم کے پردے کے ساتھ نکلیں گی۔
اس حوالے سے سہیل شاہین کا کہنا ہے ’ان کی حکومت میں خواتین چہرہ چھپائیں یا نہیں یہ ان کی مرضی ہوگی۔‘
’کابل میں میڈیا کے اداروں میں جو خواتین کام کر رہی ہیں تو اس میں وہ سکارف لیتی ہیں تو یہ منحصر کرتا ہے ان پر کہ وہ سکارف لیتی ہیں یا کوئی ایسی ہوں جو خود نقاب لیتی ہوں اور ان کی نوکری ایسی ہو۔ طلوع نیوز اور آریانہ نیوز کی خواتین ایک عملی مثال ہے۔‘

طالبان 15 اگست کو کابل میں داخل ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کابل میں طالبان افغان سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان میں خواتین سے نظر نہیں آئی۔ اس پر طالبان کے ترجمان نے واضح جواب نہیں دیا لیکن کہا کہ مستقبل میں خواتین کو تمام شعبوں میں رسائی ہوگی۔
ابھی تو بالکل ایمرجنسی کی حالت ہے۔ ابھی خلا ہے اور اس کو بھرنے کی ضرورت ہے۔ ہم فوری ضرورت کی بنیاد پر سیاستدانوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں۔‘

طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین اپنے مرضی کے مطابق پردہ کر سکیں گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی انخلا میں توسیع کے حوالے سے سہیل شاہین نے کہا کہ اس دفعہ امریکہ کی جانب سے دوبارہ خلاف ورزی قابل قبول نہیں ہوں گی۔
’ہم کیا ردعمل دکھائیں گے وہ ہماری قیادت کے فیصلے پر منحصر کرتا ہے۔‘
انہوں نے ان رپورٹس کو بھی مسترد کیا کہ دارالحکومت منتقل ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کابل ہی دارالحکومت رہے گا۔ قندھار منتقل کرنے کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔‘

شیئر: