Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماہر کمہار کی صلاحیتوں کو اس کا صبر اور نفاست ہی نکھارتی ہے

الجنادریہ میلہ میں ہر سال یہاں کی بنی مصنوعات کی نمائش کی جاتی ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
ایک سعودی ماہر کمہار نے اپنی صلاحیتوں کو نئی نسل تک پہنچانے کے عزم کے ساتھ پرانے ہنر کے راز وں سے پردا اٹھایا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق عصام حسین ابو لبن نے اپنی زندگی کے کچھ اسباق بھی پیش کئے ہیں۔انہوں نے  بتایا کہ ایک اچھے کمہار کو صبر، جوش اور نفاست کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

کئی ممالک میں سعودی قومی دن کی مناسبت سے  اپنا  ہنر دکھانے جاتے ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)

ابو لبن کا تعلق سعودی عرب میں کوزہ گری کے ماہرین کے سلسلے سے ہے۔ انہوں نے یہ ہنر اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا ہے۔
اس ماہر کاریگر کے سفر کے بارے میں مزید جاننے کے لیے عرب نیوز نے مکہ مکرمہ کے علاقے الرصیفہ میں اس خاندان کے تین ہزار مربع میٹر پر محیط ظروف  سازی کے کارخانے کا دورہ کیا۔
ابو لبن اور ان کے بھائی اس ہنر کی وراثت پانے والی چوتھی نسل میں سے ہیں اور اپنے مرحوم والد کے عزائم اور لگن کو اگلی نسل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ابو لبن کا کہنا ہے کہ میرے والد اس ہنر کے ماہر کاریگر اور متاثر کن شخصیت تھے۔ کچھ امور میں ان کی مدد تو کرتا تھا لیکن میں کبھی ان جیسا نہیں بن سکتا۔
ابو لبن کا کارخانہ مٹی کے روایتی ظروف بنانے کا  اہم ذریعہ aمجھا جاتا ہے اور  بارش کے بعد پہاڑوں سے اترنے  والے پانی کے ساتھ بہہ کر آنے والی خالص مٹی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات مٹی کے  ساتھ کچھ  پتھر آ جاتے ہیں لہٰذا اسے چھ سے آٹھ گھنٹے کے لیے خاص طریقے سے پیسنا  پڑتا ہے جس سے  مٹی اعلیٰ درجےمیں تبدیل ہو جاتی ہے۔

ابو لبن نے یہ خوبصورت قدیم  ہنر اپنے آباؤ اجداد سے سیکھا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

علاقے میں ہونے والی بارش کے بعد وادیوں میں مختلف مقامات پر جمع ہو جانےوالے پانی سے یہ مٹی حاصل کی جاتی ہے۔
اس طرح کی مٹی  مکہ مکرمہ، تبوک، ریاض، مدینہ منورہ، الخرج اور مملکت کے جنوبی حصے میں پائی جا تی ہے۔ اس کے علاوہ خشک مٹی پتھروں کی شکل میں بھی حاصل ہوتی ہے۔
ہرعلاقے کی ایک خاص طرح کی مٹی ہوتی ہے جبکہ مکہ مکرمہ کی مٹی اپنی خاصیت اور تیز سرخ رنگت کے لیے مشہور ہے۔
تبوک کی مٹی سفید رنگ کی ہوتی ہے اور مرکب میں سختی پیدا کرتی ہے۔ جنوبی علاقے سے لی گئی مٹی زیادہ درجہ حرارت کے باعث پائیداری میں بہتر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ  گارے کے رنگوں کی تیاری آسان نہیں، اس کے ہر قدم پر وقت اور محنت صرف ہوتی ہے۔
یہ ایک دستی عمل ہے جس میں ایک دن کی کھپت کی تیاری کے لیے تقریباً چار سے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔

پرانے  وقتوں میں چشموں سے نکلنے والی گیروی مٹی پر انحصار کیا جاتا تھا۔ (فوٹو عرب نیوز)

ماہر کمہار مٹی سے تیار کردہ اشیا  کی حالیہ تکنیک کو اپنانے کے ساتھ ساتھ روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ  برتن پکانے کے لیے بھٹی میں اب  ڈیزل یا لکڑی استعمال ہوتی ہے جبکہ ہمارے کچھ تندور درآمد بھی کیے جاتے ہیں جو بجلی سے چلتے ہیں۔
تندور میں آگ جلانا ایک دقت طلب عمل ہے، اس میں کئی معاونین کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کے پاس مددگاروں  کی ایک ٹیم ہے جو 20 سال سے زیادہ عرصے سے ان کے خاندان کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
یُسری ابراہیم  مصر کے کمہار ہیں جو ابو لبن کے کارخانے میں پرانے ماہرین میں سے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ میں 70 برس سے  اس شعبے سے منسلک ہوں۔ قاہرہ کے ایک قدیم دیہات میں میرا اپنا برتنوں کا کارخانہ ہے۔

مکہ مکرمہ کی مٹی اپنی خاصیت اور تیز سرخ رنگت کے لیے مشہور ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

ابراہیم نے بتایا کہ برتن پکنے کے بعد بھٹی کو کھولنا انتہائی سنسنی خیز لمحات میں سے ایک ہے کیونکہ کمہار کو اپنے اچھے کام کو دیکھنا، جانچنا اور دکھانا  ہوتا ہے۔
سعودی عرب کے مشرقی علاقے الاحسا میں الغرش خاندان کی ملکیت مٹی کے برتن بنانے کا ایک اور کارخانہ موجود ہے جو کہ  القراح پہاڑی پر واقع ہے۔
علی الغرش کے پوتے حسین عدنان الغرش جو کہ علاقے کے مشہور کمہار ہیں انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کا خاندان بھی مٹی کی بہت سی مصنوعات تیار کرتا ہے۔
انہوں نےبتایا کہ پرانے  وقتوں میں ہم زمین اور چشموں سے نکلنے والی گیروے رنگ کی مٹی پر انحصار کرتے تھے لیکن یہ جلد ہی ختم   ہوگئی اور اب ہم برادہ مٹی استعمال کرتے ہیں۔

مختلف وادیوں میں بارش کے پانی سے بھی مٹی حاصل کی جاتی ہے۔ (فوٹو وزٹ سعودی)

واضح رہے کہ سعودی عرب میں مٹی کے ظروف بنانے کے ہنر کی نمائندگی کے لیے ہر سال الجنادریہ میلہ میں یہاں کی بنی مصنوعات کی نمائش کی جاتی ہے۔
حسین الغرش نے بتایا کہ  میں میرے چچا اور میرے دادا بھی کئی ممالک میں سعودی قومی دن کی تقریبات کے سلسلے میں اپنا  ہنر دکھانے کے لیے جاتے  ہیں۔
 ہم نے فرانس، کینیڈا، امریکہ، اٹلی، مراکش، بحرین، قطر اور اردن میں منعقد کی گئی کئی بین الاقوامی نمائشوں میں بھی حصہ لیا ہے۔
ہم اس فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سیاحوں کو براہ راست ظروف کی تیاری دیکھ کر لطف اندوز ہونے کا موقع  فراہم کرتے ہیں۔
اس  کارخانے میں اب بھی لکڑی سے بنا پہیہ  ظروف سازی کے قدیم عمل کے حصے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
اس پہیے سے خصوصی طور پر مٹی کے تندو تیار کئے جاتے ہیں جو آج بھی سعودی خاندان خصوصی ڈش مندی سمیت روٹی اور روایتی کھانا بنانے کے لیے انہیں گھر کے پچھلے حصے میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔
 

شیئر: