Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ کی اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے طالبان سے بات چیت

برطانوی عہدیدار سائمن گاس طالبان سے بات چیت کرنے دوحہ گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ نے افغانستان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ سینیئر عہدیدار سائمن گاس کو طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیجا گیا ہے۔
برطانوی حکومت کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’سائمن گاس طالبان کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ برطانوی شہریوں اور ہمارے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو افغانستان سے باحفاظت نکالنے کی اہمیت پر زور دیا جائے۔‘
افغانستان سے شہریوں کے انخلا کا آپریشن شروع ہونے کے بعد برطانیہ نے پہلی مرتبہ طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات کا عوامی سطح پر انکشاف کیا ہے۔
طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ انخلا کا آپریشن مکمل ہونے کے بعد بھی افغان شہریوں کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے گی۔
نیٹو افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں میں سے آٹھ ہزار کو افغانستان سے باحفاظت نکالا جا چکا ہے۔ تاہم وزیراعظم بورس جانسن کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ افغانستان میں پھنسے ہوئے سینکڑوں افراد کو نکالنے میں ناکام رہی ہے۔
ایک برطانوی وزیر نے سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ انخلا کے آپریشن کے دوران برطانیہ مزید آٹھ سو سے ایک ہزار افراد کو نکال سکتا تھا۔
وزیراعظم بورس جانسن کی خواہش تھی کہ انخلا کی 31 اگست کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی جائے تاہم وہ امریکی صدر جو بائیڈن کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد برطانوی وزیراعظم نے کہا تھا کہ طالبان سے متعلق فیصلہ الفاظ کے بجائے ان کے اعمال کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ وزیراعظم بورس جانسن نے واضح کیا تھا کہ امریکی حمایت کے بغیر برطانیہ افغانستان میں نہیں رہ سکتا تھا۔

شیئر: