Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: جہاز میں چمگادڑ اور جریدے میں متنازع مضمون

ایئر انڈیا کو ان چیونٹیوں کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن لاکھوں ڈالر تو مان کر چلیے۔ (فوٹو: روئٹرز)
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ایئر انڈیا کا ایک جہاز، جو لندن کے لیے پرواز کرنے والا تھا، پیر کی دوپہر صرف اس لیے روانہ نہیں ہو سکا کیونکہ اس کے بزنس کلاس کیبن میں چیونٹیاں گھوم رہی تھیں۔ دوسرے جہاز کا انتظام کرنے اور اسے پرواز کے لیے تیار کرنے میں تین گھنٹے لگے۔
ایئر لائن کو ان چیونٹیوں کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن لاکھوں ڈالر تو مان کر چلیے۔ چیونٹیاں بزنس کلاس کیبن میں کیسے پہنچیں، لائی گئی تھیں یا خود آئیں، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اب تک ایئر لائن نےکوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ لیکن اگر لائی گئی تھیں تو بلا شبہہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور اگر خود آئی تھیں تب بھی یہ کافی غیرذمہ داری کی بات تھی۔
سچ جو بھی ہو، چیونٹیوں کا یوں جہاز میں پہنچ جانا پراسرار ضرور ہے، وہ بھی اس جہاز میں جو لندن جارہا تھا۔ دلی کے ہوائی اڈے سے جہاز تو امرتسر بھی جا رہے ہوں گے اور اندور بھی، پھر لندن کے ہی جہاز میں چیونٹیوں کے ملنے سے آپ جو بھی نتیجہ اخذ کرنا چاہیں، خود کر لیجیے۔ 
کیا چیونٹیاں انڈیا میں خوش نہیں ہیں؟ کیا یہ انڈیا یا کم سے کم ایئر انڈیا کی امیج خراب کرنے کی سازش تھی؟ یا وہ راستہ بھٹک گئی تھیں؟ یہ راستہ بھٹکنے والی بات ذرا سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ راستہ بھٹک کر لندن جانے والے جہاز کے بزنس کلاس میں پہنچ جانا کچھ زیادہ ہی حسین اتفاق ہے۔
بہر حال، اس پورے واقعے کی تفتیش ضرور ہونی چاہیے۔ اگر آپ کو لگے کہ یہ کوئی غیرمعمولی بات ہے تو دل تھام کر بیٹھیے۔ چیونٹیاں بے چاری کیا بیچتی ہیں، مئی میں ایئر انڈیا کے ہی ایک اور طیارے نے امریکہ کے لیے پرواز کی ہی تھی کہ عملے کو ایک چمگادڑ نظر آئی جو مزے سے ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں ادھر سے ادھر اڑ رہی تھی۔

چیونٹیوں کا یوں جہاز میں پہنچ جانا پراسرار ضرور ہے، وہ بھی اس جہاز میں جو لندن جارہا تھا۔ (فوٹو: ٹائمز آف انڈیا)

اب یوں چمگادڑ لے کر تو امریکہ جا نہیں سکتے۔ پہنچ جاتے تو ہو سکتا ہے کہ وہاں سے الٹے پیر لوٹنا پڑتا، امریکہ میں امیگریشن والوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، وہ آسانی سے ویزا پاسپورٹ والے مسافروں کو ملک میں داخل نہیں ہونے دیتے، تو چمگادڑ کی کیا حیثیت ہے اور وہ بھی کورونا وائرس سے ہونے والی تباہی کے بعد۔
آپ کو تو یاد ہوگا کہ زیادہ تر سائنسدان کورونا وائرس کے لیے چمگادڑوں کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، بس اختلاف اس بات پر ہے کہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں تک کیسے منتقل ہوا۔
اس لیے پائلٹ نے جہاز واپس موڑ کر دلی لوٹنا ہی غنیمت سمجھا۔ اور یہ بالکل صحیح فیصلہ تھا۔ پھر جہاز میں دوائی چھڑکی گئی اور انجام کار چمگادڑ کی لاش بزنس کلاس سے برآمد کی گئی۔ کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ کبھی کبھی بات چھوٹی لگتی ہے لیکن اسے کے مضمرات بہت سنگین ہوسکتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جہاز واپس لانے کی کیا ضرورت تھی، پرواز کے دوران ہی دس منٹ کے لیے دروازہ کھول دیتے تو ہو سکتا ہے کہ چمگادڑ خود بہ خود باہر نکل جاتی۔ خیر یہ اب پرانی بات ہے، اور ہمیں نہیں معلوم کہ ایئر انڈیا نے اس کی تفتیش کی تھی یا نہیں۔
ایئر پورٹ کے اطراف میں چمگادڑوں کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے، چاروں طرف کافی پیڑ ہیں اور ہرایالی بھی لیکن جہاز میں چمگادڑ کا یوں گھس پانا بلا شبہہ غیر معمولی اور فکر کی بات ہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ بھی حسن اتفاق ہی تھا کہ چمگادڑ امریکہ جانے والے جہاز میں گھسی؟

آر ایس ایس کے ’ماؤتھ پیس‘ کے طور پر مشہور ایک جریدے نے ایک غیر معمولی مضمون شائع کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تیسرا واقعہ ایئر انڈیا سے متعلق نہیں ہے۔
چند روز قبل انڈیا میں حکمران بی جے پی کی سرپرست نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے ’ماؤتھ پیس‘ کے طور پر مشہور ایک جریدے نے ایک غیر معمولی مضمون شائع کیا۔ جریدے کا نام ’پنچ جنیہ‘ ہے اور نشانے پر انڈیا ہی کی ’انفوسیس‘ کمپنی تھی جس کا شمار دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کمپنیوں میں کیا جاتا ہے۔
یہ کمپنی آج کل سرخیوں میں ہے کیونکہ وزارت خزانہ نے اسے ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کے لیے سافٹ ویئر تیار کرنے کا کانٹریکٹ دیا تھا جو کئی ہفتوں کے بعد بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے خود وزیر خزانہ کمپنی سے اپنی ناراضی کا پبلکلی اظہار کر چکی ہیں۔
لیکن پنچ جنیے نے انفوسیس کے لیے اس زبان کا استعمال کیا جو آج کل انڈیا میں نام نہاد قوم مخالف اور علیحدگی پسند عناصر کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔۔۔ ٹکڑے ٹکڑے گینگ وغیر وغیرہ۔ اور ساتھ ہی بغیر کسی ثبوت یہ الزام بھی لگایا کہ وہ قوم مخالف طاقتوں سے مل کر انڈیا کو بدنام کرنے اور اس کی معیشت کو تباہ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔
انفوسیس میں لاکھوں لوگ کام کرتے ہیں۔ ملک میں ’انٹر پرنیورشپ‘ کی وہ بہترین مثال ہے۔ اس کے باوجود کارپوریٹ دنیا اور حکومت میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر کسی نے اس کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔ تنقید کے بعد آر ایس ایس نےایک بیان جاری کر کے کہا کہ پنج جنیہ کو اس کا ’ماؤتھ پیس‘ کہنا غلط ہے اورمضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے آر ایس ایس سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
اور بات یہاں ختم ہوگئی یا ہو جائے گی۔ شاید اسی طرح جیسے چمگادڑ کے جہاز میں داخل ہونے کی بات ختم ہوگئی ہوگی اور چیونٹیوں کی ختم ہو جائے گی۔ شاید کوئی نہیں پوچھے گا کہ مضمون غلطی سے جریدے میں شائع ہوگیا یا کرایا گیا تھا اور اگر کرایا گیا تھا تو اس میں کس کس کی مرضی شامل تھی۔
کوئی بھی صحافی آپ کو بتائے گا کہ اس طرح کے مضامین چھاپنے سے پہلے سو مرتبہ سوچا جاتا ہے، سینیئر مدیران اور قانونی ماہرین سے مشورہ کیا جاتا ہے، یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ ہتک عزت کا کیس تو نہیں بن جائے گا؟
بہرحال، کوئی بولے یا نہ بولے، اخبار انڈین ایکسپریس نے اس قضیے پر ایک اداریہ شائع کیا ہے جس میں اخبار کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں بہت سے لوگوں کو قوم مخالف کا خطاب دیا گیا ہے۔
ان میں طلبہ، مظاہرین، شہری حقوق کے لیے کام کرنےوالے کارکن اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔۔۔اور اس کی وجہ سے ملک میں اظہار خیال کی آزادی کے حق کو زک پہنچی ہے لیکن کارپوریٹ دنیا میں اکا دکا لوگوں کو چھوڑ کر سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔
لیکن اب جبکہ خود ان میں سے ایک نشانے پر ہے، خاموش رہنا نہ ان کے اپنے کاروبار کے حق میں ہوگا اور نہ قومی مفاد کے۔
کبھی کبھی واپس مڑ جانا بھی اچھی حکمت عملی ہوتی ہے، جیسا چمگادڑ سے ملاقات کے بعد ایئر انڈیا کے پائلٹ نے کیا تھا۔

شیئر: