Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی میں طالبان حکومت کو جلد تسلیم کرنا غلطی تھی: سابق وزیرخارجہ سرتاج عزیز

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ 90 کی دہائی میں ان کی حکومت کی طرف سے طالبان کی پہلی حکومت کو جلدی تسیلم کرنا ایک غلطی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 
اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں سرتاج عزیز نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا حسن احمد اخوند کے ساتھ اپنی وائرل ہونے والے تصاویر کا پس منظر بھی بتایا۔
سرتاج عزیز نے بطور پاکستانی وزیر خارجہ ملا حسن اخوند کی سنہ 1999 میں پاکستان میں میزبانی بھی کی تھی۔ اس سوال پر کہ 90 کی دہائی میں پاکستان نے طالبان کے حوالے سے کون سی غلطیاں کی تھیں جنہیں اب دہرانا نہیں چاہیے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اس وقت دو غلطیاں کی تھیں۔
’چھوٹی غلطی یہ تھی کہ ہمیں پیش از وقت انہیں (طالبان کو) تسلیم نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بین الاقوامی برادری یا باقی ممالک کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ ابھی انہوں نے پورے ملک پر قبضہ نہیں کیا تھا  اور ہم نے انہیں تسلیم کر لیا تھا۔ دوسرا میرا خیال ہے کہ ہم نے بارڈر منیجمنٹ پر توجہ نہیں دی۔ پہلے بھی روسی حملے کے بعد 30، 35 لاکھ مہاجرین پاکستان آ گئے تھے، اور ان کے ساتھ ظاہر ہے کہ دہشت گرد، منشیات فروش اور اسلحہ فروش بھی آئے تو پورا سابق فاٹا غیر مستحکم ہو گیا۔‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’ابھی جو ہم نے کیا ہے کہ بارڈر پر باڑ لگائی ہے اور فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کیا ہے اور پاکستان کا پولیس اور عدالتی نظام بارڈر تک چلا گیا ہے اس سے بہتری آئی ہے، مگر اس وقت صرف مین روڈ پر پولیٹکل ایجنٹ کا کنٹرول تھا باقی سب جگہیں کھلیں تھیں، روزانہ 50، 60 ہزار لوگ بارڈر سے آتے تھے اور پتا نہیں کس طرح واپس جاتے تھے۔ یہ دو بڑی غلطیاں ہماری تھیں۔‘ 

سرتاج عزیز کے مطابق طالبان کی حکومت کو جلدی تسلیم کرنا غلطی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ پاکستان نے 25 مئی 1997 کو طالبان کو تسلیم کیا تھا جس کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے بھی ملاعمر کی قیادت میں طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا تھا۔

ملا حسن اخوند سے ملاقاتیں کیسی رہیں؟

سرتاج عزیز نے بتایا کہ ان کی ملا حسن احمد اخوند کے ساتھ تصاویر 22 سال پرانی ہیں جب وہ اگست 1999 میں ایک وفد کے ہمراہ پاکستان  کے دورے پر آئے تھے۔
’میرا خیال ہے کہ ان کی تصویریں بہت کم ہیں اس لیے میڈیا کو آرکائیو میں وہی تصاویر ملتی ہیں اور انہوں نے شائع کر دیں۔‘

سرتاج عزیز کے مطابق ’ملا اخوند صاحب ایک مذہبی سکالر ہیں اس لیے ہماری ملاقاتوں میں وہ بہت سوچ سمجھ کر گفتگو کرتے تھے اور ان کا زیادہ تر بہت مثبت اور دوستانہ انداز تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ عبوری وزیراعظم اس سے پہلے قندھار کے گورنر تھے، اس کے بعد نائب وزیرخارجہ بھی رہے۔ اس کے بعد وہ طالبان کے قائم مقام وزیراعظم بھی رہے اور اسی حیثیت میں ہمارے ہاں آئے تھے اور وہ بہت اچھا اور مثبت دورہ تھا۔‘

طالبان وہی بات مانتے تھے جو انہیں پسند آتی تھی

سرتاج عزیز نے کہا کہ طالبان کے مزار شریف پر قبضے کے بعد پاکستان نے انہیں تسلیم کر لیا تھا۔
’اس میں مسئلہ یہ تھا کہ ابھی انہوں نے پورے افغانستان پر قبضہ نہیں کیا تھا کیونکہ احمد شاہ مسعود پنجشیر وادی پر قابض تھے اور ربانی کی حکومت بھی اس لحاظ سے قائم تھی کہ بدخشاں کا علاقہ ابھی بھی ان کے قبضے میں تھا۔‘

پاکستان نے 25 مئی 1997 کو طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سرتاج عزیز نے بتایا کہ تین ممالک کے سوا کسی نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور بین الاقوامی رائے ان کے حق میں نہیں تھی۔
’اس کے بعد پاکستان پر جو دباؤ تھا وہ سکیورٹی کونسل کی طرف سے تھا۔‘
سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان نے کوشش کی تھی کہ شمالی اتحاد اور طالبان کی صلح ہو جائے اور 6 پلس ٹو کا گروپ بھی بنایا تھا جس میں چھ وسطی ایشا کی ریاستیں اور امریکہ اور روس تھے، مگر یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اگست 1998 نیروبی اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ 
یاد رہے کہ اس وقت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن افغانستان میں تھے اور امریکی مفادات پر حملوں کا الزام ان کی تنظیم القاعدہ پر لگا تھا۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 13 اگست 1998 کو ایک مذمتی قرار داد منظور کی تھی جس کے بعد ایک اور قرارداد پیش ہوئی، جبکہ اکتوبر 1999 کو ایک اور قراداد منظور کی گئی۔ دسمبر 2000 میں ایک اور قرارداد منظور ہوئی جس میں افغانستان میں موجود اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ بھی ہوا۔ اس طرح افغانستان پر بین الاقوامی دباؤ بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ طالبان نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے مؤقف پر قائم رہے کہ ہمیں ثبوت دیں۔ 
سرتاج عزیز کے مطابق طالبان کی پالیسیوں کو بین الاقوامی سطح پر قبول نہیں کیا گیا۔ 
’پاکستان نے بھی کوشش کی ان کو سمجھانے کی مگر وہ وہی بات مانتے تھے جو ان کو پسند آتی تھی، باقی اپنی مرضی کرتے تھے۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ اس کے بعد 9/11 ہو گیا اور ان کی حکومت ختم ہو گئی۔‘
90 کی دہائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ تاریخی پس منظر کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ طالبان کیسے نمودار ہوئے۔

طالبان نے 15 اگست 2021 کو کابل کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں روس کی شکست کے بعد مغربی ممالک نے سفارت خانے بند کر دیے اور افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ تاریخ کا بہت بڑا ظلم ہے کہ جن مجاہدین نے امریکہ اور پاکستان کی مدد سے ایک سپر پاور کو شکست دی ان کا خیال نہیں رکھا اور نہ ملک کا خیال رکھا گیا۔‘
’اس کے بعد مجاہدین کے دھڑوں میں اپنی لڑائی شروع ہو گئی اور پاکستان کی اتحاد کی کوششوں کے باوجود خانہ جنگی 1994 تک جاری رہی۔ ان حالات میں طالبان معرض وجود میں آئے۔ یہ وہی مجاہدین تھے جو روس کے خلاف لڑائی میں شریک تھے۔‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ’روس کے خلاف اتنی جدوجہد کے بعد افغانستان میں امن نہ آئے یہ ہمیں قبول نہیں تھا۔ اس کی ابتدا قندھار سے ہوئی جب ملا عمر نے کچھ مجاہدین کے ساتھ مل کر اغوا ہونے والے خاندانوں کو اغوا کاروں سے چھڑایا پھر دیگر علاقوں کے لوگوں نے انہیں دعوت دی کہ وہاں پر امن کے لیے آئیں۔ اس کے بعد 1995 میں ہرات میں طالبان آ گئے اور 1996 میں کابل میں بھی ان کی حکومت قائم ہو گئی جبکہ 1998 میں مزار شریف میں بھی ان کا قبضہ ہو گیا۔‘

 بیرونی طاقتیں کسی ملک میں تبدیلی نہیں تباہی لاتی ہیں

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ تاریخ کا بہت اہم سوال یہ ہے کہ کیا روس کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کو جنگ میں شریک ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔ یہ اہم سوال ہے مگر اگر غور کریں تو سب سے بڑا ظلم روس نے کیا تھا، ایک غریب ملک پر کیوں حملہ کیا تھا؟ 
اس وقت لوگ باتیں کر رہے تھے کہ روس گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے تو پاکستان کو ظاہر ہے خطرہ محسوس ہوا اور فیصلہ کیا گیا۔

طالبان کابینہ کے چند وزرا پر اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’اس کے بعد امریکہ کی غلطی تھی کہ9/11 واقعے میں حملہ کرنے والوں میں کوئی بھی افغان نہیں تھا پھر افغانستان پر کیوں حملہ کیا۔ یہ تاریخی غلطیاں ہیں مگر دونوں چونکہ سپر پاورز ہیں ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔  ظاہر ہے کہ جب بھی بیرونی طاقتیں کسی اور ملک میں جا کر تبدیلی لانا چاہتی ہیں تو تباہی آتی ہے۔ شام، لبنان، لیبیا اور یمن کے حالات میں سبق یہ ہے کہ کبھی کسی ملک میں باہر سے جا کر نہیں شامل ہونا چاہیے اس لحاظ سے پاکستان کی عدم مداخلت کی پالیسی بہت مثبت ہے۔‘

پاکستان کے لیے افغانستان میں تبدیلی کا مطلب؟

سرتاج عزیز کے مطابق افغانستان میں موجودہ تبدیلی تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہے تاہم اس کے کچھ مثبت پہلو ہیں، سب سے پہلے یہ کہ کوئی بڑی خون ریزی نہیں ہوئی جس کا بہت خطرہ تھا جیسا کہ امریکہ نے بھی کہا تھا کہ طالبان کو کابل پر قبضے میں 90 دن لگیں گے، ظاہر ہے اگر ایسا ہوتا تو بہت خون ریزی ہوتی۔ 
انہوں نے کہا کہ ’دوسرا اب تک طالبان نے جو بیانات دیے ہیں وہ بہت مثبت ہیں، ان کے پرانے ریکارڈ کے حوالے سے کہ ہم خواتین اور بچیوں کو تعلیم اور نوکری جیسے حقوق دیں گے۔ اس کے علاوہ اپنی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور جہاں تک ہو سکے گا سب کی شمولیت پر مبنی حکومت بنائیں گی۔
یہ تو مثبت باتیں ہیں لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں امن آئے گا یا نہیں۔ چار دہائیوں سے ملک میں امن نہیں ہے۔ یہاں بہت ساری نسلی تقسیم ہے پشتون، ازبک، تاجک آبادی کے درمیان، تو اس طرح کی صورتحال میں دنیا میں ایسے ادارے ہوتے ہیں جو قابو پاتے ہیں لیکن افغانستان میں ایسے ادارے نہیں ہیں۔ امریکہ کے پاس موقع تھا طالبان کو حکومت میں شامل کر لیتے تو شاید امن ہو جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی بات ہے کہ طالبان پر غیر پشتون شہری آبادی کے اعتماد کا فقدان ہے، اب دیکھنا ہو گا کہ طالبان اپنے وعدوں پر عمل کر کے امن لا سکیں گے۔ تو سب سے اہم پیمانہ امن ہے جس سے افغانستان کو جانچنا چاہیے۔

خواتین کو حقوق نہ دینے پر طالبان پر تنقید کی جا رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ دوسرا انسانی بحران کا مسئلہ ہے کہ وہاں پر حیرت ہے کہ 20 سال کی حکومت اور ٹریلین ڈالرز کے خرچے کے باوجود تین ماہ کی خوارک کا ذخیرہ تک نہیں۔
’سرکار کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تو یہ کیسی صورتحال ہے۔ پیش گوئیاں ہو رہی ہیں کہ خوراک ادویات ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ میں یا اور ممالک میں افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے بھی منجمند ہو گئے ہیں۔ یہ افغان عوام کا پیسہ ہے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔‘ 

خطے کے ممالک مل کر طالبان کو تسلیم کریں

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ چین، روس، ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک کے اپنے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں امن ہو، کیونکہ اگر جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں تجارت کھلنی ہے تو افغانستان میں امن ضروری ہے۔
’سب ممالک کا یہ مشترکہ مقصد ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی نہ ہو ظاہر ہے وہاں بہت ساری مسلح تنظیمیں ہیں جیسے ہمارے لیے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا چیلنج ہے چین کے لیے الگ تنظیم کا اور روس کے لیے الگ گروپس چیلنج ہیں۔ اگر طالبان کی یہ یقین دہانی کہ افغان زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اگر پوری ہوگئی تو خطے کے چھ سات ممالک کا کلیدی کردار ہو گا کہ یہ مل کر افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کریں اور ان کی امداد کریں۔‘

شیئر: