Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کابل ڈرون حملے میں مارا جانے والا شہری امریکہ جانا چاہتا تھا‘

حال ہی میں سامنے آنے والے ویڈیو شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارا جانے والا شخص داعش کا رکن نہیں بلکہ ایک امدادی کارکن تھا جس نے طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ جانے کے لیے اپلائی کر رکھا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کابل ایئرپورٹ پر داعش کے حملوں میں فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکی حکام نے 29 اگست کو رہائشی علاقے میں ڈرون سے میزائل حملہ کیا جس میں ازمرے احمدی نامی شہری اپنے خاندان سمیت نشانہ بنے۔
خیال رہے کہ اس ڈرون حملے کے بعد کابل کے ایک رہائشی اجمل احمدی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ میزائل کا نشانہ دس عام شہری بنے ہیں جن میں ان بیٹی، ان کے بھائی اور بھائی کے بچے شامل ہیں۔
امریکی حکام نے میزائل حملے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ کابل کے ایک گھر میں پارک کی گئی کار کو نشانہ بنایا گیا جس کے ذریعے خودکش حملہ آور ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ جبکہ اجمل احمدی کے مطابق نشانہ بنائی گئی کار کو ان کے بھائی ازمرے احمدی چلا رہے تھے اور حملے سے کچھ دیر قبل ہی گھر پہنچے تھے۔
نیو یارک ٹائمز کے ماہرین کی جانب سے سکین کی گئی سکیورٹی کیمروں کی فوٹیجز کے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ممکن ہے امریکی حکام نے ازمرے احمدی اور ان کے ساتھی کو پانی کی بڑی بوتلیں اور اپنے باس کا لیپ ٹاپ گاڑی میں رکھتے ہوئے دیکھ لیا ہو۔
ڈرون حملے کے بعد امریکی حکام نے کہا تھا کہ اس دوران دوسرا دھماکہ ہوا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا تاہم نیو یارک ٹائمز نے اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں دوسرے دھماکے کے کوئی آثار نہیں تھے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق گھر میں گاڑی کے علاوہ صرف مرکزی دروازے کو معمولی نقصان پہنچا اور کسی بھی دیوار کے گرنے اور دھماکے سے نقصان کے نشان نظر نہیں آئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے دھماکے کی بات درست نہیں۔
ازمرے احمدی الیکٹریکل انجینیئر تھے جو کیلیفورنیا میں قائم ایک امدادی تنظیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے لیے کام کر رہے تھے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جیسا کہ چیئرمین مارک ملی کہہ چکے یہ حملہ اچھی انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیا گیا اور ہم ابھی تک یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کے ذریعے ایئرپورٹ اور وہاں موجود ہمارے فوجیوں کو ایک واضح خطرے سے بچایا گیا۔‘

شیئر: