Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی سرپرست کے بغیر 200 افغان بچے قطر کیسے پہنچے؟

طالبان کا افغانستان پر قبضے کے بعد انخلا میں تیزی آئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قطر میں بغیر کسی سرپرست یا رشتے دار کے افغان مہاجر بچے اپنی روزمرہ زندگی میں بار بار کیے جانے والے سوالات کی زد میں ہیں، ’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘ اور’ کیا مجھے چپس مل سکتے ہیں؟‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حالیہ ہفتوں میں کابل سے پروازوں کے تقریباً 200 افغان بچے دوحہ پہنچے ہیں اور ان کو ایک سینٹر میں رکھا گیا ہے جہاں وہ اپنے ساتھ ناخوشگوار تجربات کے صدمے سے نبرد آزما ہیں۔
قطر چیریٹی اور دیگر ادارے ان بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، ان بچوں کی عمریں آٹھ سے 17 برس کے درمیان ہیں۔
ایک امدادی کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ جس صدمے سے گزر رہے ہیں اس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے۔‘
’تمام بچے صدمے کی حالت میں ہیں، جیسا کہ ہم نے عراق اور شام جیسے علاقوں میں بچوں کے ساتھ دیکھا جو (داعش) کے علاقوں میں رہ چکے تھے۔‘
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد نوجوانوں سمیت بہت سارے لوگوں نے اپنا ملک چھوڑا۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو اچانک روانگی کے حالات کو یاد نہیں کر پا رہے جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو متضادات بیانات دے رہے ہیں کہ وہ کیسے قطر آئے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق 14 اگست کے بعد بغیر کسی سرپرست کے تین سو بچوں کو افغانستان سے قطر، جرمنی اور دیگر ممالک بھیجا گیا۔
یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یہ بچے کیسے ایئرپورٹ تک پہنچے اور پھر قطر جانے والی پروازوں میں کیسے سوار ہوئے تاہم اس کے جوابات بمشکل دستیاب ہیں۔

امریکہ نے ہزاروں افغان شہریوں کو  فوجی طیاروں کے ذریعے ملک سے نکالا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوحہ میں امریکی سفارت خانے نے بچوں کے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایک فرانسیسی پولیس افسر جو کابل ایئرپورٹ کے دروازوں پر موجود تھا، نے ایک خاتون کے بارے میں بتایا کہ ’اس نے اپنے بچے کو فرانسیسی سپیشل فورسز کی جانب پھینکا، جنہوں نے بچے کو اٹھایا اور امریکی میڈکس کے حوالے کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بچے کا علاج کیا گیا اور اس کو دوحہ بھیجا گیا۔ وہ بہت چھوٹا تھا۔ اس کی ماں ہجوم میں غائب ہوگئی۔‘
اس افسر کے مطابق ’ایک آدمی تین بچوں کے ساتھ ایئرپورٹ کے دروازے پر آیا اور ان کو  لے کر اندر آگیا۔ وہ یتیم بچے تھے۔ اس نے شاید ان بچوں کو دروازہ کھولنے کے لیے استعمال کیا۔ ان بچوں کو بھی نکالا گیا۔‘

امریکہ کے اتحادی افغان شہری یورپ اور امریکہ پہنچا دیے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’اس طرح کی کہانیاں افراتفری کو اجاگر کرتی ہیں۔ وہ کہانیاں اس ناکامی کی تاریخ کا حصہ ہوں گی۔‘
یونیسیف کی سربراہ ہینریتا فور کے مطابق والدین سے جدا ہونے والے بچے ’دنیا کے سب سے زیادہ کمزور اور غیر محفوظ بچوں‘ میں سے ہیں۔
ایک امدادی ادارے کے رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ بہترین صورتحال وہ ہوتی ہیں جب ہم بچوں کے قریبی رشتہ دار ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بہت سارے کیسز میں ہم ایسا نہیں کر پاتے۔

شیئر: