Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘، صحافیوں کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا

سب سے زیادہ متنازع سمجھی جانے والی شق غلط خبر کے نشر ہونے پر جرمانے اور سزا کی تجویز ہے (فوٹو روئٹرز)
میڈیا پر پابندیوں اور پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ قانون کے خلاف اسلام آباد میں ملک بھر کے صحافیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا ہے۔
اتوار کو دھرنے میں صحافیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دھرنا پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران بھی جاری رہے گا۔
ٹی وی سکرینوں سے غائب اینکرز نے دھرنے کے مقام پر پروگرام کیے۔ صحافی مشترکہ اجلاس کے دوران پریس گیلری سے واک آؤٹ بھی کریں گے۔
اس سے قبل صحافیوں کی جانب سے ریلی نکالی گئی جس پر پولیس کی جانب سے ریڈ زون کو جانے والوں راستوں کو بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم احتجاج میں شریک صحافیوں خاردار تاریں ہٹا کر ڈی چوک پہنچ گئے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حکومت نے ملک میں ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک ریگولٹر بنانے کی تجویز دی ہے جسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مجوزہ اتھارٹی کو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ 
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پریس کونسل آرڈیننس اور موشن پکچرز آرڈیننس کومنسوخ کرنے اور ملک میں کام کرنے والے اخبارات، ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے ماتحت کام کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اس اتھارٹی میں سب سے زیادہ متنازع سمجھی جانے والی شق غلط خبر کے نشر ہونے پر جرمانے اور سزا کی تجویز ہے۔ حکومت کی جانب سے غلط خبر نشر ہونے پر صحافتی ادارے پر 25 کروڑ جبکہ صحافی پر ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانے اور تین سال قید تک سزا دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
اس اتھارٹی پر وجہ تنقید بننے والی دوسری بڑی شق ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ہے، جس میں ڈیجیٹل میڈیا کو رجسٹر کرنے یا این او سی حاصل کرنا ضروری قرار دینے کی تجویز ہے۔ 
اس تجویز کو حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ 

شیئر: