لاہور میں بیوٹی پارلرز اور نجی ہاسٹلز کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی سمری کیوں مسترد ہوئی؟
منگل 18 نومبر 2025 16:59
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز کی سربراہی میں صوبائی کابینہ نے حال ہی میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے رہائشی علاقوں میں چلنے والے بیوٹی پارلرز اور نجی ہاسٹلز کو قانونی جواز دینے کی ایک اہم سمری مسترد کی ہے۔
یہ فیصلہ شفافیت کی کمی اور ممکنہ بدعنوانی کے خدشات کی بنیاد پر کیا گیا جبکہ ایل ڈی اے نے دو ماہ قبل اپنے بورڈ سے رُولز میں ترمیم کی منظوری حاصل کر کے اسے کابینہ کے سامنے پیش کیا تھا۔
وزیراعلٰی آفس کے اعلٰی عہدیداروں کے مطابق یہ تجویز عوامی مفادات کے بجائے مخصوص مفادات کی خدمت کر رہی تھی اس لیے اس مسترد کیا گیا۔
اس سمری کا مسترد ہونا اس لیے بھی دلچسپ ہے کہ اس حکومت نے شاذ ہی کسی محکمے کی کوئی سمری مسترد کی ہو۔ دوسری طرف پنجاب کے بڑے شہروں خاص طور پر لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں رہائشی کالونیوں میں بیوٹی پارلرز اور نجی ہاسٹلز کی بھرمار ہے۔
ان کی اکثریت غیر قانونی طور پر چل رہی ہے جو نہ صرف ٹریفک، شور شرابے اور حفاظتی مسائل کا باعث بن رہی ہے بلکہ متعدد سنگین واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ایل ڈی اے کی حالیہ کارروائیوں سے پتا چلتا ہے کہ صرف لاہور میں ہزاروں ایسی جائیدادیں ہیں جو رہائشی استعمال سے تجاوز کر کے کمرشل سرگرمیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں جن میں بیوٹی پارلرز اور ہاسٹلز نمایاں ہیں۔
دو ماہ قبل یعنی ستمبر 2025 میں ایل ڈی اے نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں رہائشی علاقوں میں چلنے والے ’کم رسک‘ کمرشل استعمال جیسے بیوٹی پارلرز، نجی ہاسٹلز، کلینک اور چھوٹے سٹورز کو ریگولیرائز کرنے کے لیے رولز میں ترمیم کی منظوری دی تھی۔
اس تجویز کا مقصد ان غیر قانونی سرگرمیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور انہیں قانونی تحفظ دینا تھا تاکہ صوبائی خزانے کو اضافی آمدنی مل سکے۔
ایل ڈی اے حکام کے مطابق یہ ترمیم پنجاب لوکل گورنمنٹس لینڈ یوز پلان رولز 2020 کے تحت کی جانا تھی جو رہائشی علاقوں میں محدود کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دیتی ہے۔
تاہم جب یہ سمری صوبائی کابینہ کے سامنے پیش ہوئی تو اسے فوری طور پر مسترد کر دیا گیا۔ وزیراعلٰی آفس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’سمری میں شفافیت کی شدید کمی تھی۔‘
ان کے مطابق ’اس میں نہ تو مکمل اعدادوشمار فراہم کیے گئے تھے اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا کہ ریگولیرائزیشن سے عوامی مسائل کا حل نکلے گا یا پیچیدگیاں مزید بڑھیں گی۔‘
اعدادوشمار: ہزاروں غیرقانونی سرگرمیاں
پنجاب کے بڑے شہروں میں بیوٹی پارلرز اور نجی ہاسٹلز کی تعداد کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ان کی اکثریت رجسٹرڈ نہیں ہے۔
ایل ڈی اے کی اپنی رپورٹس کے مطابق صرف لاہور میں 2025-2024 کے دوران 500 سے زائد آپریشنز میں دو ہزار سے زیادہ ایسی جائیدادیں سیل کی گئیں جن میں 20 فیصد سے زائد بیوٹی پارلرز اور ہاسٹلز شامل تھے۔
اعدادوشمار کے مطابق لاہور کے بڑے رہائشی علاقوں جیسے گلبرگ، ڈیفنس، ماڈل ٹاؤن اور گارڈن ٹاؤن، کالج روڈ پر 5 ہزار سے 7 ہزار بیوٹی پارلرز چل رہے ہیں جن میں سے 70 فیصد غیر قانونی ہیں۔
یعنی بغیر کسی کمرشل اجازت کے رہائشی عمارتوں میں قائم ہیں۔ ملتان اور فیصل آباد جیسے شہروں میں یہ تعداد 2 ہزار سے 3 ہزار بتائی جاتی ہے۔
نجی ہاسٹلز کی بات کریں تو صورت حال مزید سنگین ہے۔ لاہور میں تقریباً 1500 سے دو ہزار نجی ہاسٹلز رہائشی علاقوں میں کام کر رہے ہیں جو طلبہ اور ملازمین کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے 60 فیصد غیر رجسٹرڈ ہیں۔
ترجمان ایل ڈی اے اسامہ محمود نے بتایا کہ ’ہمارا خیال تھا کہ رہائشی علاقوں میں کھلے پارلرز اور ہاسٹلز جو کہ سالانہ اپنے کاروبار کا ایک فیصد جُرمانے کی صورت میں ادا کرتے ہیں ان کو ریگولرائز کیا جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جو رولز پاس ہوئے تھے ان میں ایسے افراد کو 20 فیصد رقم ادا کر کے اپنے کاروبار رجسٹرڈ کروانا تھے، تاہم اس کی منظوری نہیں دی گئی۔‘
خیال رہے کہ بعض بیوٹی پارلرز خوب صورتی بڑھانے کی ادوایات اور انجیکشن بھی استعمال کرتے ہیں جن پر پی ایم ڈی سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ایل ڈی اے بغیر کسی ریگولیٹری فریم ورک کے صرف پراپرٹی جہاں یہ کلینک بنے ہیں کو قانون یا غیر قانون قرار دینے کی مشق کر رہا تھا، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ان کی ریگولرائزیشن ہے نہ کہ پراپرٹی رجسٹریشن کا۔
