کرپشن کے مقدمے میں زیرِ حراست سابق سرکاری افسر واش روم سے کیسے فرار ہوا؟
کرپشن کے مقدمے میں زیرِ حراست سابق سرکاری افسر واش روم سے کیسے فرار ہوا؟
پیر 17 نومبر 2025 16:17
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
پولیس ملازمین نے کہا کہ وہ پہلے خود ہی ملزم کو تلاش کر رہے تھے جس کی وجہ سے پہلے اطلاع نہیں دی (فوٹو: اے پی پی)
’پولیس اہلکار ملزم کو اینٹی کرپشن عدالت میں پیش کر کے واپس لے جا رہے تھے کہ تحصیل چکری کے قریب ملزم واش روم استعمال کرنے گیا، لیکن پھر وہاں سے واپس نہ آیا اور فرار ہو گیا۔‘
یہ راولپنڈی کے تھانہ چکری میں درج مقدمے کا متن ہے، جس کے مطابق کرپشن کے مقدمے میں گرفتار ملزم سابق اے ڈی سی آر سیالکوٹ اقبال سنگھیڑا پولیس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ واقعہ بنیادی طور پر 13 نومبر بروز جمعرات کو پیش آیا، جس کی اطلاع راولپنڈی پولیس نے تھانہ چکری میں 15 نومبر یعنی سنیچر کے روز دی۔
فرار ہونے والا ملزم بنیادی طور پر سابق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو سیالکوٹ تھا جن کا نام محمد اقبال سنگھیڑا ہے، جنہیں محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب نے رواں سال اگست میں حراست میں لیا تھا۔
یہی وہ اے ڈی سی آر ہیں جن کا معاملہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران قومی سطح پر بھی زیر بحث آیا اور پارلیمان میں بھی اس پر بات چیت ہوئی۔
پولیس ملزم کو کہاں لے کر جا رہی تھی؟
اردو نیوز کو دستیاب ایف آئی آر کے مطابق ملزم اقبال سنگھیڑا کو ایک روز قبل ہی لاہور سے راولپنڈی اینٹی کرپشن عدالت میں پیشی کے لیے لایا گیا تھا، اور پھر 13 نومبر کو ملزم کو راولپنڈی کی اینٹی کرپشن عدالت میں پیش کیا گیا۔ واپسی پر ملزم تحصیل چکری کی حدود میں واش روم استعمال کرنے گیا اور وہیں سے پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر ملزم کا بھائی اور ساتھی بھی موجود تھے، جنہوں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر ملزم کو فرار کروانے میں مدد کی۔
اس واقعے کی اطلاع ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں اے ایس آئی ظفر اقبال، کانسٹیبل یاسر، احمد بلال اور محرم شہزاد نے دی جنہوں نے 15 نومبر کو اپنے افسروں کو اس بارے میں آگاہ کیا۔
پولیس نے اپنے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایف آئی آر کے مطابق جب پولیس ملازمین سے پوچھا گیا کہ انہوں نے واقعہ تاخیر سے کیوں رپورٹ کروایا، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ پہلے خود ہی ملزم کو تلاش کر رہے تھے جس کی وجہ سے پہلے اطلاع نہیں دی۔ جب کامیابی نہ ملی، تو اس وقت ہی انہوں نے واقعہ رپورٹ کیا۔
راولپنڈی پولیس نے اپنے اہلکاروں کے خلاف پولیس آرڈر 2002 کی سیکشن 155-C کے تحت کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ درج کر لیا ہے، جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 223، 224 اور 225 شامل کی گئیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی تلاش جاری ہے اور جلد اسے دوبارہ کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس معاملے پر محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا، تاہم وہ بھی ملزم کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے پولیس کے امور کے ماہر سید فرحت کاظمی سے گفتگو کی۔ اُن کے خیال میں ابھی تک مصدقہ معلومات تو سامنے نہیں آئیں، لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ملزم واش روم استعمال کرنے گیا اور وہاں سے فرار ہو گیا، جس میں ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کی مدد بھی شامل ہو سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ملزم کوئی ‘ہارڈینڈ کریمنلُ نہیں تھا کہ وہ وہاں سے اس طرح فرار ہو جاتا، لہٰذا اس حوالے سے پولیس کو متعلقہ اہلکاروں سے بھی تفتیش کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘ملزم چوں کہ ایک اثرو رسوخ والا شخص تھا اور اور ایک اہم پوسٹ پر تعینات تھا تو ممکن ہے کہ اس نے پیسوں کا لالچ دے کر پولیس اہلکاروں سے تعاون حاصل کیا ہو۔‘
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ا‘یسے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالات اٹھاتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
‘اینٹی کرپشن پنجاب کا ابھی تک کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا، لیکن ابتدائی معلومات کے مطابق ملزم کو دوبارہ گرفتار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘
آئینی ماہر اور فوجداری مقدمات کی پیروی کا وسیع تجربہ رکھنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ا‘یسے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ایک اہم ملزم دن دہاڑے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں کیسے فرار ہو گیا، اور فرار کے بعد فوری تلاش اور ناکہ بندی کیوں نہیں کی گئی؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کئی واقعات پیش آتے ہیں جن میں اصل ملزم فرار ہو جاتا ہے اور بعد میں ملوث اہلکار معطل کر دیے جاتے ہیں، خبریں شائع ہو جاتی ہیں، اور بعد ازاں وہ اپنے عہدوں پر بحال ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ پولیس کو ایسے ملزمان کی گرفتاری کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہییں تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔