الطریف میں ’ھل القصور‘ پروگرام، تاریخی محلات کے دروازے وزیٹرز کے لیے کھل گئے
یہاں مٹی کی اینٹوں سے بنے محل نجدی طرز تعمیر کے شاہکار ہیں (فوٹو: ایس پی اے)
ریاض کے قریب تاریخی علاقے الطریف میں ’ھل القصور‘( یہ محلات ) کے عنوان سے الدرعیہ سیزن کے تحت ثقافتی پروگرام کا آغاز ہوا ہے۔
سعودی خبررساں ایجنسی کے مطابق الطریف کا علاقہ دنیا بھر میں سب سے بڑے مٹی کی اینٹوں سے بنے محلوں پر مشتمل ہے جو نجدی طرز تعمیر کا حامل ہے۔
اسے سال 2010 میں یونیسکو کےعالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں دنیا کے سب بڑے علاقے میں شامل کیا گیا ہے۔
ثقافتی پروگرام کے تحت پہلی مرتبہ الطریف کے علاقے میں واقع شاہی خاندانوں کے محلوں کی تزئین و آرائش کے بعد وزیٹرز کے لیے کھولا گیا ہے۔
الدرعیہ کا علاقہ سعودی ریاست کا پہلا مقام تھا جس کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ اس علاقے میں ماضی میں سرکاری تقریبات و غیرہ بھی ہوا کرتی تھیں۔
’حی الطریف‘ کا علاقہ قیادت و حکمرانی کی علامت ہے جبکہ نجدی طرز تعمیر کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔

امام عبدالعزیز بن محمد بن سعود نے سال ہجری 1180 بمطابق 1766 عیسوی میں منتخب کیا تھا جو وادی حنیفہ کے مغربی کنارے پر ہے۔
علاقے میں 13 محلات اور پانچ مساجد ہیں جو نجدی طرز تعمیر کا عکاس ہے۔’قصرسلوی‘ کو مرکزی پیلس کی حیثیت حاصل ہے، اس کے اطراف میں متعدد مقامات ہیں جن میں ’وقف خیری‘، بیت المال، جامع الطریف، قصر الضیافہ ، حمام الطریف وغیرہ شامل ہیں۔
ثقافتی پروگرام کے تحت 6 تاریخی محلوں کا افتتاح کیا گیا ہے جن میں سے ہرایک اپنے عہد کی عظیم تاریخ کا حامل ہے۔
ان میں ’قصرالامام عبداللہ بن سعود بن عبدالعزیز کو ثابت قدمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شہزادہ ترکی بن سعود بن عبدالعزیز کا محل ہمت اور صبر کی قدروں کی علامت مانا جاتا ہے۔

جبکہ شہزادہ ثنیان بن سعود ون محمد بن مقرن کے محل کو علم دانش کے طورپر دیکھا جاتا ہے، شہزادہ مشاری بن سعود بن محمد بن مقرن کا محل خاندانی تحفظ اور وقار کی علامت ہے۔
شہزادہ سعد بن سعود بن عبدالعزیز کا محل فن عمارت سازی اور جدت کے طور پر درج ہے۔ شہزادہ ناصر بن سعود بن عبدالعزیز کے محل کو امن اور قافلوں کے تحفظ سے عبارت کیا جاتا ہے۔
ھل القصور، کے عنوان سے درعیہ سیزن میں جس ثقافتی پروگرام کا افتتاح کیا گیا ہے اس کا مقصد ماضی کو حال سے جوڑنا اور تاریخ و ثقافت سے آگاہ کرنا ہے جو ایک تاریخ سفر سے عبارت ہے۔
