Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلوبل وارمنگ پر مملکت دنیا کی تشویش میں شریک ہے، وزیر توانائی

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سعودی عرب کا موقف دیرینہ اور واضح ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کے وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے رواں سال کے شروع میں ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو فورم میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں مملکت کا مؤقف واضح طور پربیان کیا۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور اسی طرح گلوبل وارمنگ کم کرنے کی مہم میں دوسرے ممالک کو مملکت کے عزائم سے متعلق بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پیرس معاہدے کے دیرینہ ماننے والے ہیں اور اسے استطاعت کے مطابق عمل کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر توانائی نے کہا کہ ہم سعودی عرب میں جو کچھ بھی کریں گے وہ گیسوں کے اخراج میں کمی کی مدد ثابت ہو گا اور ہم یہ خوشی سے کررہے ہیں کیونکہ توانائی کی نئی ٹیکنالوجی سے معاشی فوائد واضح ہیں۔
ہم ایک معقول اور ذمہ دار بین الاقوامی شہری کے طور پر دیکھے جانے سے لطف اندوز ہوں گے کیونکہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے2030 تک بیشتر یورپی ممالک سے زیادہ کام کریں گے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے76 ویں سیشن میں یہ پیغام 'سعودی عرب توانائی کے استحکام کے لیےعالمی مہم میں سرخرو ہوگا' اچھی طرح باور کروایا جائے گا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ہر سال اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر پیشرفت کی نگرانی کا ایک موقع ہوتے ہیں جو سب کے لیے بہتر اور زیادہ پائیدار مستقبل کے حصول کے لیے بلیو پرنٹ کے طور 2015 میں طے کئے گئے17 پالیسی اہداف کا مجموعہ ہیں اور 2030 تک ان کے نفاذ کا ارادہ کیا گیا ہے۔
یہ دورانیہ سعودی عرب کی اپنے وژن2030 کی حکمت عملی کے مطابق ہے جو مملکت کو تبدیل کرنے اور تیل پر انحصار کےعلاوہ اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے خود تیار کی گئی ہے اور یہ وژن2030 کے منصوبے کا ایک اہم حصہ بھی ہے۔

گلوبل وارمنگ انسانیت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

ایسا ہی ایک پیغام نیویارک اور اگلے مہینے گلاسگو میں ہوگا جب کہ COP26 کا سربراہی اجلاس پیرس معاہدوں کے نفاذ کے اگلے مرحلے پر اہم فیصلے کرے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سعودی عرب کا موقف دیرینہ اور واضح ہے۔ مملکت باقی دنیا کی تشویش میں شریک ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو بغیر چیک کیے جانے دیا جائے تو یہ انسانیت کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
مزید یہ کہ عالمی توانائی میں ایک اہم ملک کی حیثیت سے سعودی عرب پرعالمی ماحول کے تحفظ کے لیے ایک بڑی ذمہ داری ہے۔
خاص طور پر توانائی پیدا کرنے والے اہم ملک کے طور پر اس کے کردار کی وجہ سے سعودی عرب کی پوزیشن یورپ اور شمالی امریکہ کے کچھ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہے۔
ایک سعودی پالیسی مشیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ہم معیشت کو بچانے اور ماحولیات کی حفاظت کے درمیان غلط انتخاب کو مسترد کرتے ہیں۔

 مملکت سے نکالا جانے والا تیل دنیا کے صاف ترین خام تیل میں سے ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

ہم توانائی کی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی عالمی مانگ کو عالمی سطح پر توانائی کے مستقبل کا دوبارہ تصور کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور وژن 2030 کے ذریعے ہمارا مقصد اس مستقبل کو آگے بڑھانا ہے۔
شہزادہ عبدالعزیز طویل عرصے سے استحکام اور توانائی کی کارکردگی کے حوالے سے سرگرم رہے ہیں اور دو سال قبل ان کے وزیرتوانائی کے طور پر تعینات ہونے کے بعد سے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک جامع پالیسی کی طرف بڑھنے کی مہم کو نیا حوصلہ ملا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں مملکت کی حکمت عملی کا مرکز سرکلر کاربن اکانومی (سی سی ای) کا تصور ہے جو کہ انسانیت کے پاس توانائی کے انتہائی مؤثر اور طاقتور ذرائع تیل اور گیس سے چلنے والی معاشی نمو کے فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک فریم ورک ہے۔
سرکلر کاربن اکانومی کا تصور4 اصولوں پر مبنی ہے۔ جن میں صنعتی عمل اور ماحول سے نقصان دہ CO2 و دیگر کے اخراج کو کم کرنا، دوبارہ استعمال میں لانا، ری سائیکل کرنا اور بالآخر ہٹا دینا شامل ہے۔

تیل پیداواری یونٹس کی چمنی پر آگ کا شعلہ بھڑکانے کا رواج اب بند ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

مملکت کی ایک دیرینہ پالیسی ہے جس کا مقصد توانائی کی بچت کے پروگراموں کے ذریعے گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنا ہے جو سفر، صنعت اور تعمیرات پر مرکوز ہیں جیسا کہ آزادانہ سائنسدانوں نے ماپا ہے۔
سعودی عرب سے نکالا جانے والا تیل پہلے ہی دنیا کے صاف ترین خام تیل میں سے ایک ہے۔
سعودی آرامکو کے پاس توانائی کا موثر انجن تیار کرنے کے لیےایک بڑا پروگرام بھی موجود ہے۔ جس کے تحت ہائیڈروکاربن مصنوعات کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے اور مملکت کے صنعتی شعبے میں ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب نے ایک عرصہ قبل تیل پیداواری یونٹ کی چمنی پر آگ کا شعلہ بھڑکانے کا رواج بند کر دیا تھا جو کہ تیل پیدا کرنے والے کئی ممالک میں اب بھی عام ہے۔
 

شیئر: