Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر تیسرا صحافی کام سے دل برداشتہ اور جذباتی ہیجان کا شکار‘

رپورٹ کے مطابق پرائیویٹ ٹیلی ویژن کے آنے اور بریکنگ نیوز کی دوڑ شروع ہونے سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
صحافیوں کی استعداد بڑھانے کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر تیسرا صحافی اپنے کام سے دل برداشتہ ہو چکا ہے جبکہ ہر چار میں سے ایک صحافی کام کے دباؤ کی وجہ سے غضے اور جذباتی ہیجان کا شکار ہے۔
کراچی میں قائم سینٹر فار ایکسیلینس ان جرنلزم کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ ادارے میں تین سال سے جاری صحافیوں پر کام کا دباؤ جانچنے کی تحقیق اور انہیں اس حوالے سے مشاورت فراہم کرنے کا خلاصہ ہے جسے ماہر نفسیات ڈاکٹر آشا بدر نے تحریر کیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کے صحافتی اداروں میں کام کرنے والے 107 صحافیوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ مشاورتی ملاقات کی گئیں جن کا کل دورانیہ 600 گھنٹوں سے زائد رہا۔
مشاورت کا حصہ بنے والے صحافیوں میں 40 سے زائد خواتین اور 50 سے زائد مرد تھے، جبکہ تمام صحافتی شعبوں جیسے کہ رپورٹرز، سب ایڈیٹرز، پروڈیوسر اس کے حصہ بنے۔
ڈاکٹر آشا بدر کے مطابق ’تقریباً تمام صحافیوں نے تسلیم کیا کہ ذہنی دباؤ اس پیشے کا حصہ ہے، اور اکثر اسے حوصلہ بڑھانے کا باعث بھی سمجھتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیشتر صحافی موجودہ طرزِ صحافت کو پریشانی اور ذہنی دباؤ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مشاورت کا حصہ بننے والے صرف چار صحافی ایسے تھے جن کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے کام کے دوران کبھی ذہنی دباؤ کا سامنہ نہیں کرنا پڑا۔‘
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پرائیویٹ ٹیلی ویژن کے آنے اور بریکنگ نیوز کی دوڑ شروع ہونے سے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ’اکثر صحافیوں کا ماننا تھا کہ اخبارات کے دور میں نسبتاً سکون تھا، ایسی مارا ماری نہ تھی۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں تین ہزار سے زائد صحافی کام کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مشاورت کا حصہ بننے والے صحافیوں میں سے بیشتر کی عمریں 20 سے 50 سال کے درمیان تھیں، جبکہ ذہنی دباؤ کی کونسلنگ لینے والوں میں رپورٹر اور سب ایڈیٹر سب سے زیادہ تھے۔
فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جو 107 افراد مشاورت کے لیے آئے ان میں سے آدھے رپورٹر اور سب ایڈیٹر تھے، جبکہ بقیہ آدھے میں پروڈیوسر، فوٹو گرافر، اینکرز، نیوز روم مینجر، طلبہ و دیگر شامل تھے۔
مشاورتی عمل میں 45 صحافی ایسے تھے جو جذباتی ہیجان کا شکار تھے، جبکہ 19 کو ذہنی دباؤ اور غصے کا سب سے زیادہ سامنا رہتا تھا۔
2018 سے 2020 کا احاطہ کرنے والی اس رپورٹ نے صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے زیادتی کا شکار ہونے والے افراد کا تناسب بھی جاری کیا۔
جس کے مطابق ہر دوسرا صحافی ایسا تھا جو کسی نہ کسی صورت میں زیادتی کا نشانہ بنا۔

ڈاکٹر آشا بدر کے مطابق تقریباً تمام صحافیوں نے تسلیم کیا کہ ذہنی دباؤ اس پیشے کا حصہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ہر تین میں دو صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہیں اعلیٰ افسران کی جانب سے دھونس اور دھمکی کا سامنا رہا، اتنے ہی صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کام کے دوران انہوں نے جنس کی بنیاد پر تفریق کا مشاہدہ کیا یا وہ خود اس کا شکار ہوئے۔‘
10 میں سے ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ’انہیں صحافی ذمہ داریاں نبھانے کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ جس میں جسمانی، زبانی یا آن لائن حراساں کرنا شام ہے۔‘
یہاں یہ واضح رہے کہ صحافیوں کو صرف ان کے ساتھیوں اور اعلیٰ افسران کی جانب سے ہی نہیں بلکہ دیگر افراد کی جانب سے بھی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے آخر میں تجاویز بھی دی گئی جس میں کہا گیا کہ سب سی اہم اپنی ذہنی حالت کو سمجھنا اور قابلِ بھروسہ لوگوں سے اس حوالے سے بات کرنا ہے۔ توجہ کسی اور کام کی جانب مبذول کرنا، کام کو کچھ دیر کے لیے ترک کر دینا اور اپنے ساتھ کام کر ے والے سے مدد مانگنے کی عادت ڈالنا بھی ذہنی دباؤ کو کم کرنے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا کہ کراچی میں تین ہزار سے زائد صحافی کام کرتے ہیں، جبکہ رپورٹ صرف 100 افراد سے مشاورت پر مشتمل ہے۔
لہذا اس میں خامیاں اور کمی متوقع ہے تاہم اگر اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو لگ بھگ یہی مسائل تمام صحافیوں کو لاحق ہیں۔

شیئر: