Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیہات، دیہاتی اور دہقان: لفظوں کی اصل کا دلچسپ اشتراک

فارسی میں دِہقان کے دیگر معنی میں زمیندار و کاشتکار یا مزارع کے علاوہ ’دیہاتی‘ یعنی دیہ کا باشندہ بھی شامل ہے۔(فائل فوٹو: روئٹرز)
افلاس زدہ دِہقانوں کے ہَل بیل بکے، کھلیان بکے
جینے کی تمنّا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے
شعر میں ہمیں ساحر لدھیانوی کے افکار سے نہیں الفاظ سے دلچسپی ہے۔ لفظ ’افلاس‘ پر ہم پہلے بھی گفتگو کر آئے ہیں، لہٰذا اس سے صرفِ نظر کرتے اور 'دِہقان' کی بات کرتے ہیں۔’دِہقان‘ دراصل فارسی کے ’دہگان‘ کی معرّب صورت ہے۔ یہ دو لفظوں ’دہ‘ اور ’گان‘ سے مرکب ہے۔ اس میں ’دہ‘ کے معنی ’گاؤں‘ کے ہیں، جب کہ ’گان‘ علامتِ نسبت ہے، جو بطورِ لاحقہ آتی ہے۔ اسے بازارگان (تاجر)، گورگان (لائقِ عیش و عشرت) اور رایگان (بلا عوض یا مفت) کی سی تراکیب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں ’دہگان‘ کے لفظی معنی گاؤں کا مالک یا زمیندار کے ہیں۔ جب کہ اصطلاح میں صاحبِ جائیداد کو ’دہگان‘ کہتے ہیں۔
’دہقان‘ پر مزید بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ لاحقہ ’گان‘ کی ایک اور صورت ’گانہ‘ کا کچھ ذکر ہوجائے۔ اس ’گانہ‘ کا مشاہدہ آپ نے ’بچگانہ، دوگانہ، سہ گانہ اور پنجگانہ‘ وغیرہ کے سے الفاظ و اعداد میں کیا ہو گا۔ فارسی کی رعایت سے اردو میں دو رکعت نماز کو ’دوگانہ‘ اور پنچ وقتہ نماز کو
’پنجگانہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو حیدر علی آتش کا شعر ملاحظہ کریں:
گناہ گار ہیں محراب تیغ کے ساجد
جھکایا سر تو ادا فرض پنجگانہ ہوا 
فارسی میں ’دِہقان‘ کے اطلاق و استعمال میں وسعت پائی جاتی ہے۔ قدیم ایران میں شہری و دیہی کی تفریق کے بغیر زر و زمین کا مالک ہی خالص ایرانی سمجھا جاتا اور اپنی جائدادِ منقولہ و غیر منقولہ کی نسبت سے ’دِہقان‘ کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ اہل ایران عربوں، ترکوں اور خیمہ و بادیہ نشینوں کے مقابلے میں بھی خود کو ’دِہقان‘ کہلواتے تھے۔
گاؤں کا سربراہ، مالک یا بزرگ کے معنی میں ’دِہقان‘ کی ایک صورت ’دہخدا‘ بھی ہے۔ اس لفظ  میں ’خدا‘ کے معنی مالک و آقا کے ہیں۔ اسے کشورخدا (بادشاہ)، ناخدا (ملاح) اور مجازی خدا (شوہر) وغیرہ کی سی تراکیب کے علاوہ علامہ اقبال کے شعر سے بھی باآسانی سمجھا جاسکتا ہے:
دِہ خُدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
اب واپس ’دہقان‘ پر آتے ہیں، فارسی میں دِہقان کے دیگر معنی میں زمیندار و کاشتکار یا مزارع کے علاوہ ’دیہاتی‘ یعنی دیہ کا باشندہ بھی شامل ہے۔ اپنے ان معنی کے ساتھ ’دِہقان‘ اردو میں بھی رائج ہے۔ فارسی میں ’دیہ‘ کی جمع دیہات ہے، مگر اردو میں غلط طور پر ’دیہات‘ کو واحد کے معنی میں برتا جاتا ہے اور اس کی جمع ’دیہاتوں‘ کی جاتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ’ساقی فاروقی‘  کا شعر ملاحظہ کریں، جن کا کہنا ہے:
وہ دیہاتوں کے رستے ہوں، کہ ہوں فٹ پاتھ شہروں کے
جہاں پر رات پڑ جائے وہاں گھر دیکھ لیتا ہوں
پھر اردو میں ایک بات اور دلچسپ ہے، وہ یہ کہ ’دیہات‘ کا باشندہ تو ’دیہاتی‘ ہے، مگر اس دیہات سے متعلق دیگر چیزیں ’دیہی‘ ہیں، جیسے دیہی زندگی وغیرہ۔ یوں بات گھوم کر واپس ’دیہ‘ پر آ جاتی ہے۔  
بعض فرہنگ نویسوں کے مطابق اہل ایران کا اختیار کردہ نام ’دِہقان‘ دراصل عربوں کی دین ہے۔ وہ یوں کہ معلوم و معروف حقیقت کے مطابق سرزمین عرب کی بہ نسبت ایران میں باغبانی و کاشتکاری کے ذرائع وافر تھے، جب کہ عرب کے مرکز مکہ کو خود قرآن میں ’وادی غیر ذی زرع‘ یعنی وہ علاقہ جہاں زراعت نہ ہوتی ہو، پکارا گیا ہے۔ اس لیے امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ایران میں کثرت کاشتکاری کی وجہ سے اہل عرب نے انہیں ’دِہقان‘ کا نام دیا ہے۔
دنیا ہزارہا برس سے زراعت پیشہ چلی آرہی ہے، ایسے میں جغرافیائی اختلاف اور لسانی و تمدنی تضاد کے باوجود زراعت سے متعلق بعض الفاظ اور افعال میں اشترک فطری بات تھی۔ مثلاً ’ہَل‘ کھیتی باڑی کا بنیادی اوزار ہے، کسان کو اس ’ہَل‘ ہی کی نسبت سے ’ہَالی‘ بھی کہا جاتا ہے، اب اس ’ہَالی‘ کو اس کہاوت میں دیکھیں ’ہالی کا پیٹ سَہالی سے نَہیں بَھرتا‘ یعنی کام کرنے والے کے لیے کھانا بھی زیادہ اور صحت بخش ہونا چاہیے۔
حرف ’لام‘ کے ’ر‘ سے بدلنے کی صورت میں زیر بحث ’ہَل‘ کی ایک صورت ’ہَر‘  ہے اور اسی ’ہَر‘ سے لفظ ’ہَاری‘ ہے جو سندھ میں کسان کو کہتے ہیں۔ گمان کہتا ہے کہ لفظ ’ہرا‘ اور ’ہریالی‘ کو بھی اسی ’ہَر‘ سے نسبت ہے۔ وہ یوں کہ خشک کھیت ’ہر‘ چلنے ہی پر ہرے بھرے ہوتے ہیں۔

’ہَل‘ کی ایک صورت ’ہَر‘  ہے اور اسی ’ہَر‘ سے لفظ ’ہَاری‘ ہے جو سندھ میں کسان کو کہتے ہیں۔ (فوٹو: ان سپلیش)

اب کھیتی باڑی سے متعلق انگریزی لفظ 'HARROW' پرغور کریں، آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس انگریزی ’ہاررو‘ کی اصل بھی ’ہر‘ ہے، فرق بس اتنا ہے کہ انگریزی میں جسے ’ہاررو‘ کہتے ہیں وہ اردو میں ’سہاگا اور میڑا‘ کہلاتا ہے، اس کی مدد سے کھیتوں کو ہموار کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔  
ٹریکٹر کی ایجاد سے بھی صدیوں پہلے سے ہَل اور گاڑی میں بیل جوتے جاتے تھے، اس ہَل یا گاڑی کا لکڑی سے بنا حصہ جو دوبیلوں کو باہم جوڑے رکھتا ہے ’جُوَا‘ کہلاتا ہے۔ یہی ’جُوَا‘ معمولی تبدیلی کے بعد جرمن زبان میں ’جوخ/Joch‘،انگریزی میں ’یوک/Yoke‘ اور فارسی میں ’یوغ‘ ہے۔
بیل کے ذکر یاد آیا کہ اردو کا بیل انگریزی میں ’بُل‘ ہے، جب کہ گائے سے متعلق پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’گائے‘ فارسی میں ’گاؤ‘ ہے اور انگریزی میں ’کاؤ‘ کہلاتی ہے۔ 
مختلف زبانوں میں الفاظ کا یہ اشتراک ان زبانوں کا ایک ہی سلسلے سے وابستہ ہونا ثابت کرتا ہے، ماہرین زبان نے زبانوں کے اس سب سے بڑے سلسلے کو ’ہندیوروپی گروہ‘ کا نام دیا ہے۔

شیئر: