Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئین کی بنیاد پارلیمانی نظام، صدارتی نظام رائج کرنے کی درخواستیں ناقابل سماعت

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے دائر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے دیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ نے صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا حکم جاری کرنے کی تمام درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین میں عدالت کو ایسا کوئی اختیار نہیں کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دے۔ 
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار وکیل احمد رضا قصوری نے مؤقف اختیار کیا کہ رجسٹرار کو درخواستیں مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل سے پوچھا کہ ان کی درخواستیں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کوئی ٹھوس بات کرتی بھی ہیں کہ نہیں؟ ملک میں طاقتور سیاسی جماعتیں موجود ہیں ان کی موجودگی میں عدالت کیوں آنا پڑا؟ ج
احمد رضا قصوری نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف گاکم گلوچ ہوتی ہے، سیاستدان اگر ملک کے مفاد اور فلاح کا نہیں سوچتے تو کیا میں بھی خاموش ہو جاؤں؟
وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’آئین پاکستان کے بانی افراد میں سے میں واحد زندہ شخص اس وقت ملک میں موجود ہوں۔‘ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 6 کے تحت وزیراعظم ریفرنڈم کے لیے معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھتے ہیں، کیا یہ معاملہ ابھی تک وزیراعظم یا پارلیمان کے سامنے آیا بھی ہے کہ نہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا صدارتی نظام کا نفاذ صرف فرد واحد کی خواہش ہے؟
احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ فرد واحد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’قصوری صاحب آئین بن رہا تھا اور آپ اس وقت رکن پارلیمنٹ تھے، آپ آئین کے بانی تھے تب پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟‘

وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’آئین پاکستان کے بانی افراد میں سے میں واحد زندہ شخص ہوں۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ ’میں نے تو آئین بناتے وقت بھی آئین کے دستاویز کی مخالفت کی تھی۔‘
جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا کوئی بھی شخص عدالت آ کر وزیر اعظم کو ہدایات جاری کرا سکتا ہے کہ ریفرنڈم کرائے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدارتی نظام کی درخواست میں سیاسی سوال ہے جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کس بنیاد پر ریفرنڈم کرانے کا حکم دے؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم اور صدارتی نظام کا تجربہ اس قوم کے لیے اچھا نہیں رہا۔ سنہ 1984 میں ریفرنڈم ہوا کہ اسلام چاہیے تو میں صدر ہوں۔ 
احمد رضا قصوری نے کہا کہ ’میں نے ملک کو 1971 میں دو لخت ہوتے دیکھا ہے۔‘ جس پر جسٹس مںصور علی شاہ نے ان کو مخاطب کر کے جواب دیا کہ عدالت کو غیر متعلقہ معاملات میں مت الجھائیں۔
عدالت میں ایک اور درخواست گزار ڈاکٹر صادق علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نقطہ نظر سے جمہوریت خلفائے راشدین والی ہونی چاہیے۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ خلفائے راشدین جیسی قیادت ہر شخص کی خواہش ہے، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے اب خلفائے راشدین جیسی قیادت ملنا ممکن نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ہم سب کو چمن میں دیدہ ور کی تلاش اور انتظار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قائداعظم نے بھی جمہوریت کی بات کی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سنہ 1962 کے صدارتی نظام میں ہی ملک دو لخت ہوا تھا۔
سینیئر وکیل احمد رضا قصوری اور دیگر نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے درخواستیں دائر کر کے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ دینے کی استدعا کی تھی۔

شیئر: