Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع یا نیا چیئرمین، حکومت گومگو کا شکار

چیئرمین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی مدت ملازمت کا اختتام چند دن دور ہے تاہم ابھی تک حکومت واضح فیصلہ نہیں کر پائی کہ ان کی مدت ملازمت میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع کی جائے گی یا پھر موجودہ قانون کے مطابق اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیئرمین کا انتخاب کیا جائے گا۔
موجودہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کا نوٹی فیکیشن 8 اکتوبر 2017 کو کیا گیا تھا اور انہوں نے 10 اکتوبر سے چار سالہ عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 6 (بی) کے تحت چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جا سکتی۔
مقامی میڈیا کے مطابق وزارت قانون نے ایک صدارتی آرڈیننس کا مسودہ تیار کر رکھا ہے جس کے تحت قانون تبدیل کرکے موجودہ چیئرمین کو توسیع دی جا سکتی ہے، تاہم ابھی تک اس آپشن کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
اس سے قبل وزیرقانون فروغ نسیم میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ انکی وزارت کی جانب سے اس حوالے سے کسی آرڈیننس کا مسودہ نہین تیار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ چیئرمین نیب کے لیے کس شخص کا انتخاب کریں وہ اس حوالے سے صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔‘

حکومت کے پاس آپشنز کیا ہیں؟

اس وقت نیب کے قانون، نیب آرڈیننس 1999، کی شق 6 (بی) میں واضح لکھا ہے کہ چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی اور یہ مدت ناقابل توسیع ہے، تاہم اگر حکومت کو جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی مدت میں توسیع کرنی ہے تو اسے نیب قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔
وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ حکومت چیئرمین نیب کی تعیناتی کے حوالے سے اپوزیشن رہنما کے ساتھ مشاورت نہیں کرے گی کیونکہ نیب مقدمات کا سامنے کرنے والے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت کرنا ایسا ہی ہو گا کہ مشتبہ شخص سے پوچھا جائے کہ اس سے تفتیش کون کرے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نیب امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی اعزاز سید نے بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق وزارت قانون نے صدارتی آرڈیننس کا ایک مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت قانون میں ترمیم کرکے نیب آرڈیننس 1999 کی شق 6 (بی) میں چیئرمین کی مدت ملازمت کو ناقابل توسیع کے بجائے قابل توسیع بنایا جا سکتا ہے۔ اگر وزیراعظم کی منظوری کے بعد صدر یہ آرڈیننس جاری کر دیں تو پھر قانونی گنجائش نکل آئے گی اور اس نئے قانون کے تحت حکومت صرف ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کو ایک اور مدت تک توسیع دے سکتی ہے۔

اگر حکومت کو جاوید اقبال کی مدت میں توسیع کرنی ہے تو اسے نیب قانون میں ترمیم کرنا ہوگی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اعزاز سید کے مطابق موجودہ حکومت کے سرپرست اور حکومت کے بعض عناصر توسیع کے حق میں ہیں تاہم ابھی تک وزیراعظم عمران خان کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کی حمایت سامنے نہیں آئی۔ ان کے مطابق وزیراعظم جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کے بجائے نیا چیئرمین نیب لانا چاہتے ہیں تاہم اس سلسلے میں اپوزیشن سے مشاورت سے گریز بھی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ قانونی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ حکومت اس سال کے اوائل میں پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر کو بالکل اسی طریقے سے توسیع دے چکی ہے جبکہ نیب قانون کے تحت ان کا تین سال کا دور بھی ناقابل توسیع تھا تاہم ایک آرڈیننس کے تحت اسے قابل توسیع کے لفظ سے بدل کر انہیں توسیع دے دی گئی۔
اب یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت توسیع کے لیے آرڈیننس کا راستہ اختیار کرتی ہے یا پھر نئے چیئرمین کو تعینات کیا جاتا ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ اگر آئندہ ہفتے آرڈیننس جاری نہ ہوا تو چیئرمین نیب رخصت ہو جائیں گے۔

’بلاول بھٹو واضح کرچکے ہیں کہ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت نہیں کی جائے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پیپلز پارٹی توسیع کی مخالف، مسلم لیگ ن کنفیوژن کا شکار

دوسری طرف متحدہ اپوزیشن بھی اس معاملے پر کچھ کنفیوز نظر آرہی ہے۔ چار سال قبل جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی تقرری پر تمام سیاسی جماعتوں نے اگرچہ اتفاق کیا تھا لیکن بعد ازاں نیب کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کی بنیاد پر انہیں تعینات کرنے والی دونوں جماعتیں ان کے خلاف ہو گئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے موجودہ چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع کی کھل کر مخالفت سامنے آئی ہے مگر حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ ن اس معاملے پر خاموش ہے۔ جمعے کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شیری رحمان نے کہا کہ ’ان کی جماعت چیئرمین نیب کی مدت میں توسیع کی کبھی حمایت نہیں کرے گی۔‘ ان سے پوچھا گیا کہ اگر حکومت آرڈیننس لے آئی تو پیپلز پارٹی کا کیا ردعمل ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے حکمت عملی مشاورت سے تیار کی جائے گی مگر پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو واضح کرچکے ہیں کہ توسیع کی حمایت نہیں کی جائے گی۔‘
دوسری طرف اردو نیوز کی طرف سے متعدد بار پوچھنے کے باجود مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے چیئرمین نیب کی توسیع کے حوالے سے پارٹی موقف دینے سے گریز کیا۔
اس سے قبل پارٹی کی نائب صدر مریم نواز بھی اس حوالے سے بات کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں اور چند دن قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافی کی جانب سے سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ جب یہ معاملہ آئے گا تب دیکھا جائے گا۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کی قیادت چیئرمین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال پر شدید تنقید کرتی رہی ہے تاہم اب اچانک پارٹی خاموشی اختیار کر رہی ہے۔

حکومت نے ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کو چیئرمین نیب مقرر کیا تو قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے ایک مرتبہ پھر مشاورت نہ کرنے کا کہہ کر ان کی تقرری کو چیلنج کر دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ماضی میں بغیر مشاورت تقرری پر دو چیئرمین نیب فارغ ہوئے؟

اگر حالیہ تاریخ کو دیکھا جائے تو بغیر مشاورت تعینات کیے گئے چیئرمین نیب کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا تھا۔
اٹھارھویں ترمیم کے بعد چیئرمین نیب، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کی شرط رکھی گئی تو حکومت نے 2010 میں جسٹس (ریٹائرڈ) دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب تعینات کیا۔
قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ان کی تعیناتی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ مارچ 2011 میں موجودہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بینچ نے تین سطری فیصلے میں ان کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں با معنی مشاورت جسے بعد میں نتیجہ خیز مشاورت قرار دیا گیا کو لازمی قرار دیا۔
اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کا اس وقت موقف تھا کہ مشاورت لازمی ہے، اتفاق رائے نہیں۔ تاہم چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آگاہ کرنے کو مشاورت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس دیدار حسین شاہ کے بعد حکومت نے ایڈمرل (ریٹائرڈ) فصیح بخاری کو چیئرمین نیب مقرر کیا تو قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے ایک مرتبہ پھر مشاورت نہ کرنے کا کہہ کر ان کی تقرری کو چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ان کی تقرری کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔

وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے کئی نام زیر غور آئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تو نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے وزیراعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے کئی نام زیر غور آئے لیکن مشاورتی عمل ناکام رہا۔ بالآخر دونوں نے اس وقت کے سیکریٹری داخلہ کو قبل از وقت ریٹائر کر کے چیئرمین نیب بنانے پر اتفاق کر لیا۔
اپوزیشن کی جانب سے دیے جانے والے نام پر حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعت تو بمشکل متفق ہو گئی تھیں، پارلیمان میں نووارد جماعت تحریک انصاف نے ان کی تعیناتی کو چیلنج کر دیا، تاہم انہیں عہدے سے ہٹانے میں وہ ناکام رہی۔
صرف یہی نہیں بلکہ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد جب نیب کو نواز شریف، اسحاق ڈار، مریم نواز اور کیپٹن صفدر سمیت دیگر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم ملا تو اس وقت بھی تحریک انصاف نے چیئرمین نیب قمر زمان چودھری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا۔
قمر زمان چودھری کے بعد نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کا نام بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا جس سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اتفاق کیا۔
یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تعینات ہونے والے دونوں چیئرمین نیب کو قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت نہ کرنے کی وجہ سے ہٹایا گیا جبکہ ن لیگ کے دور میں تعینات کیے گئے دونوں چیئرمین کے نام پیپلز پارٹی نے دیے جس پر ن لیگ کے وزراء اعظم نے اتفاق کیا۔

شیئر: