Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سمندری طوفان 'شاہین'سے گوادر میں نقصانات، درجنوں کشتیاں تباہ

شمال مغربی بحیرہ عرب میں آنے والے سمندری طوفان ’شاہین‘ سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی ساحلی پٹی کو لاحق خطرہ ٹل گیا ہے تاہم اس طوفان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمی نظام سے بلوچستان کے جنوب مغرب میں ساحلی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
تیز رفتار ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور سمندر میں طغیانی کی کیفیت ہے۔
حکام کے مطابق گوادر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں، متعدد کچے مکانات گر گئے ہیں، بجلی کی فراہمی 20 گھنٹوں سے متاثر ہے جبکہ اونچی لہروں اور تیز ہواؤں سے ساحل پر کھڑی تین درجن سے زائد کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں۔
سنیچر کو  محکمہ موسمیات کے کراچی میں واقع ٹروپیکل سائیکلون وارننگ سینٹر کی جانب سے  سنیچر کی شام چھ بجے جاری کیے گئے الرٹ بلیٹن کے مطابق سمندری طوفان ’شاہین‘ پچھلے 12گھنٹوں کے دوران 15 کلومیٹر گھنٹہ کی رفتار سے بحیرہ عرب میں شمال مغرب کی طرف بڑھا ہے۔
سنیچر کی صبح چھ بجے طوفان گوادر سے جنوب مغرب میں تقریباً 120کلومیٹر دوری پر تھا اور شام چھ بجے تک گوادر سے مزید 130 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے 250 کلومیٹر دوری پر چلا گیا۔ طوفان کا رخ عمان کی طرف ہوگیا ہے اور اس وقت (سنیچر کی شام) مسقط سے 225 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔
الرٹ بلیٹن کے مطابق شاہین نامی یہ طوفان کراچی سے بھی مزید دور ہوکر مغرب میں 730 کلومیٹر فاصلے پر پہنچ گیا ہے ۔طوفان کے مرکز کے قریب115 سے 125 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں جس سے سمندر طغیانی کی حالت میں ہے۔
محکمہ موسمیات نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سمندری طوفان کچھ وقت کےلئے مغرب سے شمال مغرب کی طرف چلتا رہے گا اور پھر جنوب مغرب میں عمان  کی طرف مڑ جائے گا۔
بلوچستان کے اضلاع گوادر، لسبیلہ، آواران، کیچ اور پنجگور اس موسمی نظام کے زیر اثر ہیں جہاں گزشتہ جمعہ کی شام سے وقفے وقفے سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سنیچر کی صبح تک سب سے زیادہ گوادر کے ساحلی علاقوں اوماڑہ میں 54 ملی لیٹر، پسنی میں 49 ملی لیٹر، جیونی میں 38 ملی لیٹر جبکہ گوادر شہر میں 37 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے۔

بلوچستان کے جنوب مغرب میں ساحلی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو بشکریہ رحیم بلوچ

محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز نے اردو نیوز کو بتایا کہ طوفان کا رخ متحدہ عرب امارت سے ملحقہ عمان کے شمالی حصے کی طرف ہو گیا ہے، امکان ہے کہ پیر کی صبح تک یہ طوفان عمان کے ساحل سے ٹکرا ئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں مزید خطرہ ٹل گیا ہے تاہم تیز ہواؤں اور بارشوں کا سلسلہ اتوار تک جاری رہنے کا امکان ہے جس سے نقصانات کا خدشہ ہے۔
گوادر کی مقامی انتظامیہ کے مطابق گوادر، سربندن، پشکان، جیونی، کلمت، اورماڑہ، پسنی، جیونی اور دیگر ملحقہ علاقوں میں جمعہ کو شروع ہونے والا بارش کا سلسل سنیچر کو بھی وقفے وقفے سے جاری رہا جس سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ گوادر میں 80 سے 90 کلومیٹر کی رفتار سے ہوائیں بھی چلیں۔
گوادر کے رہائشی عبداللہ بلوچ نے بتایا کہ رات اور ہفتہ کی صبح اتنی تیز ہوائیں چل رہی تھیں کہ گھر کی چھتوں پر موجود پانی کی ٹینکیاں اور سولر پینل گر گئے۔ بارش سے شہر کی سڑکیں ڈوب گئی ہیں اور آمدو رفت میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ کھمبے گرنے کی وجہ سے 20 گھنٹوں سے پورے شہر کی بجلی بھی معطل ہے۔
گوادر کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق گوادر میں سڑکوں پر جمع پانی کی نکاسی کی جارہی ہے۔ موسلادھار بارشوں سے جیونی اور پسنی میں کچھ کچے مکانات کی دیواریں گری ہیں تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔ متاثرہ افراد کے لیے امدادی سامان بجھوادیا گیاہے۔
بارشوں سے سب سے زیادہ ماہی گیر متاثر
بارشوں سے سب سے زیادہ ماہی گیر متاثر ہوئے ہیں۔ ماہی گیر اتحاد گوادر کے صدر خدائے داد واجو نے اردو نیوز کو بتایا کہ گوادر کے مشرقی ساحل دیمی سر (ایسٹ بے) پر 10سے12 فٹ اونچی لہروں اور تیز رفتار ہواؤں کے باعث لنگر انداز درجنوں کشتیاں ٹو ٹ گئی ہیں۔

سب سے زیادہ گوادر کے علاقے اوماڑہ میں بارش ریکارڈ کی گئی۔ فوٹو بشکریہ رحیم بلوچ

’کئی ماہی گیروں نے اپنی کشتیاں کرین کی مدد سے سمندر سے نکال کر خشکی پر کھڑی کردی تھیں مگر رسیاں ٹوٹنے سے دیمی سر کے ساحل پر کھڑی کشتیاں ایک دوسرے سے یا پھر قریبی زیر تعمیر شاہراہ سے ٹکرا گئیں۔‘
خدائے داد واجو نے بتایا کہ ماہی گیروں کی 35 سے40 چھوٹی بڑی کشتیاں یا تو ڈوب گئی ہیں یا ٹوٹ کر تباہ ہوگئی ہیں، چھوٹی کشتیاں آٹھ سے دس لاکھ اور بڑی کشتیوں کی قیمت پچیس سے تیس لاکھ روپے ہے، متاثرہ ماہی گیروں کی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹ گئی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور نیشنل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ماہی گیروں کے نقصانات کا ازالہ کرے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ماحولیات رحیم بلوچ نے تصدیق کی کہ 30 کے لگ بھگ کشتیوں کو نقصان پہنچا ہے، متعلقہ ٹیموں نے نقصانات کا درست تخمینہ لگانے کے لیے سروے شروع کر دیا ہے۔
ماہی گیر رہنماء خدائے داد واجو کے مطابق گوادر کا دیمی سر یا ایسٹ بے کہلائے جانے والا ساحلی حصے پر گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے سمندری لہریں روکنے کے لیے دیوار تعمیر کی جا رہی ہے جس کا 600 فٹ حصہ اب تک بن چکا ہے, مگر اس دیوار کی اونچائی بہت کم رکھی گئی ہے لہریں اس کے اوپر سے گزر کر آرہی تھیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس دیوار کی اونچائی میں مزید اضافہ کرے تاکہ آئندہ ایسی طوفانی صورتحال میں ماہی گیروں کی کشتیوں کو نقصان نہ پہنچے۔
گوادر، تربت اورپنجگور پر مشتمل مکران ڈویژن کے کمشنر عرفان شاہ غرشین نے اردو نیوز کو بتایا کہ بارشوں یا سمندری طوفان سے اب تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، رابطہ سڑکیں بحال ہیں البتہ ساحل پر کچھ کشتیوں کو نقصان ہوا ہے۔

35 سے40 چھوٹی بڑی کشتیاں ڈوب گئیں یا ٹوٹ کر تباہ ہوگئیں۔ فوٹو بشکریہ رحیم بلوچ

محکمہ موسمیات کے مطابق تیز ہواؤں، بارشوں اور طغیانی سے مکران کے ساحل کے کمزور ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے بلوچستان کے تمام متعلقہ حکام کو پیشگوئی کی مدت کے دوران الرٹ رہنے کا کہا گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کراچی میں ٹرپیکل سائیکلو ن مرکز سمندری طوفان کی کڑی نگرانی کر رہا ہے۔
سمندری طوفان کا نام گلاب ہے، گل آب یا شاہین؟ 
محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر سردار سرفراز نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کو متاثر کرنے والا موجودہ سمندری طوفان گل آب نہیں بلکہ شاہین ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ جب کوئی سمندری طوفان کسی ساحل سے ٹکراتا ہے تو اس کا نام وہیں ختم ہوجاتا ہے اور آگے بڑھنے پر اس کا نیا نام رکھا جاتا ہے۔ 
سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ  خلیج بنگال میں ہوا کے کم دباؤ کی شدت تبدیل ہوجانے پر بننے والے طوفان ’گل آب‘ کا نام پاکستان کے محکمہ موسمیات کا تجویز کردہ تھا جس کا مطلب پانی کا پھول ہے لیکن اسے غلط تلفظ کے ساتھ ’گلاب‘ کہا گیا۔
ان کے مطابق گل آب نامی سمندری طوفان جب بھارتی ساحل سے ٹکرا کر پاکستان کی جانب بڑھا تو اس کا نیا نام ’شاہین‘ رکھا گیا جو قطر کا تجویز کردہ تھا۔ 
خیال رہے کہ سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پاکستان، بھارت، ایران، بنگلہ دیش، عمان، سعودی عرب، قطر سمیت 13جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔

شیئر: