وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے۔
فواد چودھری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔‘
قبل ازیں فواد چوہدری نے اردو نیوز کے سوال پر بتایا کہ ’تحقیقات ہر صورت کی جائیں گی، چاہے وہ اپنی پارٹی کے لوگوں کے خلاف ہو یا دوسری پارٹی کے ارکان کے خلاف وزیراعظم اس پر واضح موقف دے چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پیر کو وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے قانونی مشاورت کریں گے جس میں طے کیا جائے گا کہ پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کس سطح پر کی جائے اور کس نوعیت کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
مزید پڑھیں
-
کیا مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کا نام پنڈورا پیپرز میں شامل ہے؟Node ID: 606026
سینیئر قانون دان حامد خان سمجھتے ہیں کہ ’پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے پانامہ جے آئی ٹی کی طرز پر ہی ایک انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے جس میں تمام تحقیقاتی اداروں کے افراد شامل ہوں۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کا دائرہ اختیار کافی محدود ہے اور پنڈورا پیپرز میں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ فوجداری معاملات بھی دیکھنے ہوں گے جبکہ ایف بی آر صرف ٹیکس لا تک ہی محدود ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایف بی آر ٹیکس چوری، اثاثہ جات اور دیگر مالی معاملات کی چھان بین تو کر سکتا ہے لیکن وائٹ کالر کرائم تحقیقات کے لیے اس سے بڑھ کر بھی کرنا ہوگا جس میں ایف بی آر کے اختیارات کافی محدود ہیں اس لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینی کی ضرورت ہے جس کو اختیارات بھی دیے جائیں۔
پنڈورا لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطحی سیل قائم کیا ہے یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائینگے #PandoraLeaks
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 4, 2021
حامد خان نے مطالبہ کیا کہ ’وزیراعظم کو کسی بھی تحقیقاتی ٹیم سے پہلے ان وزرا سے استعفی لینے چاہیے جن کے نام پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں، اگر کابینہ میں ایسے افراد بدستور کام جاری رکھتے ہیں تو پھر تحقیقات کے نتائج سے بھی کوئی زیادہ امیدیں وابسطہ نہیں کی جاسکتیں۔‘
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات اس صورت میں ہوں گی جب یہ ثابت ہو جائے کہ آف شور کمپنی بنانے کا مقصد ٹیکس چوری کرنا یا منی لانڈرنگ کرنا تھا۔ ’آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں ہے اگر وہ ظاہر کی ہوئی ہو اور اس کا مقصد منی لانڈرنگ کرنا نہ ہو اس لیے پہلے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کوئی غلط کام ہوا یا نہیں۔‘
