Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنڈورا پیپرز: وزیراعظم انسپکشن کمیشن کے تحت سیل قائم، تحقیقات کیسے ہوگی؟

وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے پنڈورا لیکس کی تحقیقات  کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے۔
فواد چودھری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔‘
قبل ازیں فواد چوہدری نے اردو نیوز کے سوال پر بتایا کہ ’تحقیقات ہر صورت کی جائیں گی، چاہے وہ اپنی پارٹی کے لوگوں کے خلاف ہو یا دوسری پارٹی کے ارکان کے خلاف وزیراعظم اس پر واضح موقف دے چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پیر کو وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے قانونی مشاورت کریں گے جس میں طے کیا جائے گا کہ پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کس سطح پر کی جائے اور کس نوعیت کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
سینیئر قانون دان حامد خان سمجھتے ہیں کہ ’پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے پانامہ جے آئی ٹی کی طرز پر ہی ایک انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے جس میں تمام تحقیقاتی اداروں کے افراد شامل ہوں۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کا دائرہ اختیار کافی محدود ہے اور پنڈورا پیپرز میں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ فوجداری معاملات بھی دیکھنے ہوں گے جبکہ ایف بی آر صرف ٹیکس لا تک ہی محدود ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایف بی آر ٹیکس چوری، اثاثہ جات اور دیگر مالی معاملات کی چھان بین تو کر سکتا ہے لیکن وائٹ کالر کرائم تحقیقات کے لیے اس سے بڑھ کر بھی کرنا ہوگا جس میں ایف بی آر کے اختیارات کافی محدود ہیں اس لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینی کی ضرورت ہے جس کو اختیارات بھی دیے جائیں۔
حامد خان نے مطالبہ کیا کہ ’وزیراعظم کو کسی بھی تحقیقاتی ٹیم سے پہلے ان وزرا سے استعفی لینے چاہیے جن کے نام پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں، اگر کابینہ میں ایسے افراد بدستور کام جاری رکھتے ہیں تو پھر تحقیقات کے نتائج سے بھی کوئی زیادہ امیدیں وابسطہ نہیں کی جاسکتیں۔‘
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات اس صورت میں ہوں گی جب یہ ثابت ہو جائے کہ آف شور کمپنی بنانے کا مقصد ٹیکس چوری کرنا یا منی لانڈرنگ کرنا تھا۔ ’آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں ہے اگر وہ ظاہر کی ہوئی ہو اور اس کا مقصد منی لانڈرنگ کرنا نہ ہو اس لیے پہلے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کوئی غلط کام ہوا یا نہیں۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہریوں کی تحقیقات ہر صورت کی جائیں گی۔ (فائل فوٹو)

خالد رانجھا کے مطابق ’ایف بی آر ان 700 پاکستانیوں کے اثاثوں کی چھان بین تو کر سکتے ہیں لیکن ان آف شور کمپنیوں کے ذریعے کتنا دھن چھپایا گیا اور کیسے پاکستان سے باہر پیسہ منتقل ہوا یہ بظاہر ایف بی آر کے لیے پتہ لگانا ممکن نہیں۔‘
سابق وزیر قانون کے خیال میں ’جن ممالک میں یہ آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں ان سے حکومت پاکستان تفصیلات نہیں لے سکتی کیونکہ وہ قانونی طور پر پابند نہیں تاہم اگر اس تحقیقات کے پیچھے احتساب کرنا ہی نیت ہو تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کے پاس ایف بی آر کے علاوہ نیب، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں جو کالے دھن کا پتہ لگا سکتی ہیں لیکن اس سب کا دارومدار حکومت کی تشکیل کی گئی کمیٹی اور اس کو دیے گئے اختیارات پر منحصر ہوگا۔‘
خیال رہے کہ انٹرنیشل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹ کی تحقیقاتی رپورٹ ’پنڈورا پیپرز‘ اتوار کو منظر عام پر آئی تھی جس میں دنیا بھر کے بااثر افراد سمیت پاکستان سے 700 افراد کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی وزرا کے علاوہ بیوروکریٹس، میڈیا مالکان اور سابق آرمی افسران کے نام بھی آف شور کمپنیوں کی اس رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے نام بھی آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا ہے جبکہ انہوں نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ ایف بی آر کو آف شور کمپنیاں بنانے والوں کے اثاثوں کی چھان بین اور تحقیقات کا کہیں گے۔

شیئر: