Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحرا  میں بھٹکتے مسافروں کے لیے لیزر لائٹس کی تنصیب

صحرا ربع الخالی تقریباً 650،000 مربع کلومیٹرتک پھیلا ہوا ہے (فوٹو: عرب نیوز)
ایسے مسافروں کے لیے جو صحرا میں اپنا راستہ کھو دیتے ہیں ان کے لیے محفوظ زمینی راستے یا پانی کی تلاش اکثر پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ایک نئی سعودی حکمت عملی کے تحت صحراؤں میں  بڑی  لیزر لائٹس کی تنصیب کا کام کیا جا رہا ہے۔ صحراؤں میں محفوظ ٹھکانے بنانے کے لیے یہ حکمت عملی تیار کی گئی ہیں۔
سعودی عرب کے شمال میں موجود وسیع وعریض صحرا النفود میں پانی کے نایاب ذرائع کے لیے جانا جاتا ہے۔
اس علاقے میں آنے والے تجربہ کار یا ناتجربہ کار افراد ایک بڑے صحرا میں راستہ بھٹک سکتے ہیں اور یوں یہ جگہ ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

ماحولیات کے ماہر سعودی شہری محمد فہید سحیمان الرمالی نے شمالی علاقے حائل میں کئی ریسکیو آپریشنز کے بعد صحرا میں پانی کے ذرائع کے قریب بیکن لیزرلائٹ  کی تنصیب کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں۔
محمد فہید نےعرب نیوز کو بتایا کہ ’صحرا میں آنے والے بہت سے لوگ پانی کی عدم دستیابی کے باعث شدید مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ تو جان سے بھی جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ پانی کے کس قدر نزدیک ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے یہ خیال اس وقت آیا  جب میں نے محسوس کیا کہ یہاں پہنچنے والے صحرائی راستوں سے آشنا بھی ہوں تو وہ پانی کے بغیر پریشانی کی حالت میں ہوتے ہیں۔‘
فہید  السحیمان  نے بتایا کہ ’ماحولیات، زراعت وپانی کی وزارت کی نگرانی میں خصوصی کمپنی کی مدد سے شمسی توانائی سے چلنے والی 11  لیزر لائٹس میں سے پہلی بیم لائٹ گذشتہ ہفتے یہاں نصب کی گئی ہے جبکہ باقی اگلے چند ہفتوں میں لگا دی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ نائٹ لیزر بیم کا استعمال اس لیے کیا گیا ہے کہ اگر کوئی صحرا میں کھو جائے تو وہ رات کو روشنی دیکھ سکے اور جان سکے کہ پانی کہاں دستیاب ہے۔
ان کی اس کوشش نے خطے کے بڑے تاجروں کی توجہ بھی حاصل کی ہے جو حائل اور الجوف کے علاقوں کے درمیان 100 لیزرلائٹس لگانے کے لیے فنڈز مہیا کریں گے۔
سعودی عرب میں ربع الخالی سب سے بڑا صحرا ہے جو کہ زیادہ تر جنوب مشرقی اور جنوبی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے اور تقریباً ساڑے چھ لاکھ مربع کلومیٹرتک پھیلا ہوا ہے۔
صحرا النفود جسے مقامی طور پرعظیم نفود کے نام سے جانا جاتا ہے سعودی عرب  کے شمالی علاقے  میں تقریبا 64 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
ریسکیو ٹیموں نے ان وسیع صحراؤں میں لاتعداد مشنز کیے اور خوش قسمت گمشدہ افراد کو 24 گھنٹے کے اندر ڈھونڈا تاہم صحراؤں میں پانی کی تلاش میں کئی لوگوں نے جانیں گنوائیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ جولائی میں ریاض کے جنوب میں و وادی الدواسر میں ایک شخص حمود ال عجلین لاپتہ  ہوا تھا جو تین دن کی تلاش کے بعد اپنے ٹرک سے چند میٹر کے فاصلے پر سجدے کی حالت میں مردہ  پایا گیا۔
40 سالہ حمود عجلین اپنی گاڑی میں گھر کے استعمال کے لیے لکڑیاں  اکٹھی کرنے گیا تھا اس کی کہانی سینکڑوں ایسی کہانیوں میں سے ایک ہے۔
صحرائی علاقوں میں رضاکاروں کے طور پر تلاش کرنے والی ریسکیو ٹیم انجاد کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق  گذشتہ سال صحراؤں میں 13 ہزار سے زائد گاڑیاں پھنسیں جن میں سے سات ہزار تین سو 95 ریاض، دو ہزار 98 قصیم، ایک ہزار تین سو 35 مشرقی ریجن، چھ سو 37 حائل اور 20 گاڑیاں الجوف میں پھنسی تھیں۔
ریگستان میں گمشدہ اور پھنسے ہوئے افراد کی کل تعداد ایک سو 42 نوٹ کی گئی تھی۔ جن میں سے 28 جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، 14  تاحال لا پتہ ہیں جبکہ باقی 100 افراد بچ گئے تھے۔

وزارت ماحولیات، پانی و زراعت میں پانی کے نائب وزیر ڈاکٹر عبدالعزیز الشیبانی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’صحرا میں آبی وسائل پر بہت موثر طریقے سے غور کیا جا رہا ہے۔‘
وزارت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ ایسی لائٹس  دوردراز علاقوں میں تقسیم کی جائیں جہاں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔
ڈاکٹرعبدالعزیز الشیبانی نے مزید کہا کہ اس کام کے لیے بنائے جانے والے طریقہ کار کو وزارت کے منصوبوں کے لیے بحالی اور آپریشن کے معاہدوں میں لاگو کیا جائے گا۔
اس میں پروجیکٹ گارڈ ، آپریٹر، ایندھن کی حفاظت اور دیکھ بھال شامل ہوگی، جس میں وقتاً فوقتاً سپروائزر کے دورے بھی شامل ہوں گے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ 2018 سے وزارت پانی کے ٹینکوں اور ٹاوروں کے اوپر فریکوئنسی سگنل استعمال کررہی ہے تاکہ صحرا میں بھٹک جانے والے مسافروں کی رہنمائی ہو سکے۔

شیئر: