Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبوک میں سدا بہار چشموں کی تنگ وادی، طیب اسم

’اس بلند پہاڑی علاقے کو سدا بہار چشموں کی سرزمین کہا جاتا ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)
سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے تبوک میں دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسی تنگ وادی واقع ہے جو اپنے قدرتی مناظر، سال بھر بہنے والے میٹھے اور صاف پانی کے چشموں کے دلفریب مناظر کے باعث سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔
العربیہ کے مطابق اس وادی کو ’طیب اسم‘ کا نام دیا جاتا ہے تاہم اس نام کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں ہو سکی۔
خلیج عقبہ کے شمال مشرقی ساحل سے 10 کلومیٹر کی مسافت پر واقع اس بلند پہاڑی علاقے کو سدا بہار چشموں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
 اس کے قریب ساحل مرجانی چٹانوں کی بہ دولت توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ قدرتی مقامات کی سیر وتفریح میں دلچسپی رکھنے اور فوٹو گرافی کے شوقین لوگوں کے لیے یہ ایک دلفریب مقام ہے۔
اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی اپنی دلکشی اور دلفریبی میں اپنی مثال آپ ہے۔ رات کے وقت اس جگہ کے مناظرایک الگ ہی قدرتی ماحول رکھتے ہیں۔
 اس مقام کا موسم، آب وہوا، ماحول اور صاف ستھرا آسمان سیاحوں کے لطف اندوز ہونے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
ایک مقامی فوٹوگرافرمحمد الشریف نے ’طیب اسم‘ نامی اس پہاڑی وادی کے مناظر کے بارے میں بتایا ہے کہ ’پہاڑوں کے درمیان ایک بڑا شگاف ہے جس نے اسے ایک گھاٹی نما وادی میں بدل دیا ہے۔ یہ جگہ اتنی تنگ ہے کہ اس میں ایک وقت میں صرف ایک کار ہی گزر سکتی ہے‘۔

’پہاڑوں کے درمیان ایک بڑا شگاف ہے جس نے اسے ایک گھاٹی نما وادی میں بدل دیا ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)

’اس وادی میں میٹھے پانی کے تین چشمےسال بھر بہتے رہتے ہیں۔ قریبی سمندری پانی کی نسبت ان چشموں کا پانی زیادہ میٹھا اور صحت افزا ہے‘۔
بالیقین یہ سعودی عرب میں عجائب فطرت میں ایک عجوبہ ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں اونچے پہاڑ ہیں۔ قریب ہی سمندر ہے جبکہ وادی کے اندر کھجور کےدرختوں نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیے ہیں۔
فوٹو گرافر محمد شریف نے بتایا کہ ’خلیج عقبہ کے فیروزی پانیوں اور سفید ساحلوں کے ساتھ یہاں پر 600 میٹر کی بلندی پر گرینائٹ بلاک ہے جس کے نوکیلے کنارے اطراف میں کھجور کے درختوں سے بھرپور خلیج عقبہ سے ملتے ہیں‘۔

’خلیج عقبہ کے فیروزی پانیوں اور سفید ساحلوں کے ساتھ یہاں پر 600 میٹر کی بلندی پر گرینائٹ بلاک ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)

’کھجور کے درختوں سے ملحق سائٹ کے داخلی راستے سے پہاڑ کو دیکھیں تو وہ گرینائٹ کا ایک بلاک دکھائی دیتا ہے جو دیکھنے میں ایسے لگتا ہے کہ کسی دور میں یہ ایک ہی پہاڑ تھا مگراب یہ دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’وادی طیب اسم 30 کلومیٹر لمبی ہے اور اس میں ایک گھاٹی ہے جبکہ دونوں پہاڑوں کے درمیان لکڑی سے بنا ایک پُل ہےجو گول چٹانوں پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پیدل چلنے والوں کے لیے اندر جانے کا واحد راستہ ہے۔ ایڈونچر سے محبت کرنے والے ان پہاڑوں پر چڑھ سکتے ہیں اور چٹان کی دوسری طرف پانچ کلو میٹر کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔

شیئر: