Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوج واحد منظم ادارہ ہے، سمری پر دستخط نہ کرنا جاہلانہ انداز: مولانا فضل الرحمان

پااکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’ہمارے ہاں فوج ایک واحد منظم ادارہ ہے جو عوام کی ایک آخری امید ہوا کرتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل چیف آف آرمی سٹاف کے ماتحت ہے، اس کی خدمات کا تعین اس کا باس ہی کرتا ہے۔‘
مولانا فضل الرحمان نے بدھ کو اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’صورت حال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے لیکن ہمیں فکر اس بات کی ہے کہ پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘
’بدقسمتی سے اس وقت جو ملک کا حکمران کہلایا جاتا ہے (جو ہماری نظر میں نہیں ہے) جہاں اس نے پورے ملک کو برباد کیا ہے، اسی طرح ہمارے ملک کے منظم ادارے کو جو نقصان چند دنوں میں اس نے پہنچایا ہے، شاید ہمارا دشمن پاکستان کے اس ادارے کو اتنا نقصان نہ پہنچا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہر ادارے کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ یہ حکمران پاکستان کو ڈبونے کے لیے آیا ہے، پاکستان کو ترقی دینے نہیں آیا ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ ڈی جی آئی ایس آئی کا نہیں ہے، ایک لیفٹیننٹ جنرل کا بطور ڈی جی آئی ایس آئی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل براہ راست چیف آف آرمی سٹاف کے ماتحت ہے، اس کی خدمات کا تعین اس کے اپنے باس نے کرنا ہوتا ہے۔‘
’یہاں پر چونکہ آئی ایس آئی کے حوالے سے کوئی ایکٹ موجود نہیں ہے ۔ایک ایگزیکٹیو آرڈر کا جو اختیار ہے وہ حُسن کی حد تک ہے، یہ اختیار اس حد تک نہیں کہ اس پر کوئی ڈٹ جائے اور کہے کہ میں دستخط نہیں کرتا، میں نوٹی فیکیشن جاری نہیں کرتا۔‘
’جس طرح صدارتی طرز حکومت میں فیصلے پارلیمنٹ کرتی ہے، چیف ایگزیکٹیو وزیراعظم ہوتا ہے لیکن حُسن کے لیے فائل ایوان صدر میں بھی جاتی ہے اور اس پر صدر کے دستخط بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ چیزیں معروف ہوتی ہیں۔‘

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا بہت سے معاملات پر اَڑ جانا کوئی معقولیت نہیں‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے متعلق کہا کہ ’وہ جس طرح جاہلانہ انداز کے ساتھ اور بہت سے معاملات پر وہ اَڑ جاتے ہیں۔ یہ انداز بالکل ان پڑھ لوگوں کا ہے۔ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔‘
’لیفٹیننٹ جنرل بہرحال آرمی چیف کے ماتحت ہے۔ اس کی خدمات کا تعین انہی نے کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے فوج کے دائرہ کار میں اس حد تک وزیراعظم کا چلے جانا کہ ملکی نظام ہی جام ہو جائے ٹھیک نہیں۔ اس سے کمانڈ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘
’یہ حشر کر دیا ہے انہوں نے جو کمانڈ کے متحد رکھنے کا ذمہ دار کہلاتا ہے۔ کمانڈ کا بیڑا ہی غرق کر دیا انہوں نے۔‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’ہمارا مستقل موقف ہے کہ آئین نے جس کا جو دائرہ اختیار متعین کیا ہے، اسی دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے جب ہم اپنا کردار ادا کریں گے تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘
’اگر مشکلات پیش آئی ہیں تو اسی وجہ سے آئی ہیں کہ پارلیمنٹ کے اختیار میں کسی اور نے مداخلت کی ہے، فوج کے اختیار میں کسی اور نے مداخلت کی ہے۔ ہمیں اس مشکل سے بڑی عقل مندی کے ساتھ نکلنا ہوگا۔‘
’جس قسم کے لوگ قوم پر مسلط ہیں، عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے قوم کی جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔‘

شیئر: