Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کی انسانی حقوق کونسل میں تین سال بعد دوبارہ شمولیت

سابق صدر ٹرمپ نے کونسل پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگایا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
امریکہ نے ساڑھے تین سال بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل چھوڑنے کے تین سال بعد امریکہ دوبارہ اس میں شامل ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کونسل کے لیے 18 ممالک کا انتخاب کیا ہے جن کا بطور کونسل رکن تین سالہ مدت کا آغاز یکم جنوری سے ہوگا۔
رکن ممالک کا انتخاب خفیہ رائے شماری ہوتا ہے۔ امریکہ کے علاوہ انڈیا، قطر، عرب امارات، ملائیشیا، صومالیہ، قازقستان، مونٹے نیگرو، آرجنٹینا، بینن، کیمرون، اریٹریا، فن لینڈ، گیمبیا، اونڈورس، لتھوینیا اور لکسمبرگ شامل ہیں۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کا تحفظ، خلاف ورزیوں کی نشاندہی اور سفارشات پیش کرنا کونسل کی ذمہ داری ہے لیکن اریٹریا کی بطور رکن شمولیت سے ایک مرتبہ پھر آمرانہ حکومت کو کونسل میں جگہ دینے پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
سال 2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انسانی حقوق کونسل پر منافقت اور اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اسے چھوڑ دی تھی۔
لیکن جنوری میں امریکہ کی کونسل میں واپسی پر اسے چین کا سامنا کرنا پڑے گا جو امریکہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔
ایک یورپی سفیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ چین اور دیگر ممالک جو انسانی حقوق کی مخالفت کرتے ہیں وہ معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بھی مخالف ہیں۔ یہ کوئی نئی روایت نہیں ہے لیکن بلاشبہ مضبوط ہو رہا ہے۔‘
ایک اور سفارت کار کا کہنا تھا کہ ’چین کا مقصد سادہ ہے، انسانی حقوق کی پوری دنیا میں پاسداری کے تصور کو تباہ کرنا ہے، اور ایسا تصور لاگو کرنا ہے جو اس کے سیاسی نظام سے مطابقت رکھتا ہو۔‘

امریکہ کے علاوہ انڈیا کو بھی آئندہ تین سال کے کونسل کا رکن منتخب کیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

حالیہ سالوں میں چین اور اس کے اتحادیوں نے مشترکہ بیانات جاری کیے ہیں جن میں چین کے ہانگ کانگ، سنکیانگ اور تبت میں اقدامات کی حمایت کی گئی ہے اور مغربی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی ہے۔‘
کونسل میں بڑھتی ہوئی گروہ بندی کے پیش نظر کچھ کا خیال ہے کہ امریکہ کی واپسی سے رکن ممالک چینی اور امریکی حمایتی گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔
جنیوا میں انسانی حقوق کے تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر مارک لیمون کا کہنا ہے کہ امریکہ صرف چین پر توجہ دے رہا ہے، چین پر حملے اور جوابی حملوں سے کونسل کا ضروری کام نظرانداز ہو رہا ہے۔
’اکثر ممالک تنگ آ گئے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ کثیرالجہتی نظام طاقت کے کھیل کا یرغمال بنا ہوا ہو۔‘
انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ان ترقی پذیر ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے جو اس کی عدم موجودگی میں چین کے قریب ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر چن لو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ امریکہ تعمیری بات چیت کو آگے بڑھائے گا اور انسانی حقوق کو سیاسی آلہ کار کے طور پر نہیں استعمال کرے گا۔

شیئر: