Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگائی، گورننس اور سیاست، ماریہ میمن کا کالم

وزیراعظم بھی عوام کو مہنگائی کی وجوہات سمجھانا چاہتے ہیں۔ جیسے اگر وجہ پتہ چل گئی تو روٹی سستی ہو جائے گی اور گاڑی تیل کم کھائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مہنگائی کا ذکر ہر خاص وعام کی زبان پر ہے ۔ پٹرول کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اس مہنگائی کو کوئی بم کہہ رہا ہے اور کوئی سونامی ۔ چینی اور روزمرہ ضرورت کے اشیا کی قیمتوں کے آسمان سے باتیں کرنے کا ذکر بھی اب پرانا ہو گیا۔ اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ محدود آمدنی والوں کے لیے ضروریات بھی تعیشات بن گئی ہیں۔  
حکومت کے پاس البتہ جواب میں صرف باتیں ہیں۔ کبھی یہ باتیں وجوہات کی شکل میں سامنے آتی ہیں اور بین الاقوامی منڈی سے تقابل ہوتا ہے۔ وزیراعظم بھی عوام کو مہنگائی کی وجوہات سمجھانا چاہتے ہیں۔ جیسے اگر وجہ پتہ چل گئی تو روٹی سستی ہو جائے گی اور گاڑی تیل کم کھائے گی۔ کبھی یہ باتیں دلاسوں کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ ’گھبرانا نہیں ہے‘ تو اب ایک مذاق بن چکا ہے مگر اب تو ’جلد ہے‘ کی جگہ ’جب بھی‘ سننے کو ملتا ہے۔ جب بھی عالمی منڈی میں قیمت کم ہوئی ہماری قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی۔ یہ جب کب آئے گا یہ پتہ نہیں۔ سردیوں میں البتہ گیس کے بحران اور قیمت میں اضافے کی پیشن گوئیاں ابھی سے ہو رہی ہیں۔
مہنگائی حکومت کا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ گورننس کی صورتحال کو بیان کے لیے اب پتلی، خراب یا دگرگوں جیسے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ ابھی کورونا کا زور ٹوٹا بھی نہیں تھا کہ ڈینگی نے پنجے گاڑ دیے۔ اسلام آباد جو وفاقی دارالحکومت ہے وہاں پر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مریض لائے جاتے رہے۔ اسلام آباد شہر کے علاوہ صحت اب صوبائی شعبہ ہے۔ پنجاب حکومت کی جب تک آنکھ کھلی اس وقت تک ہسپتالوں میں مریضوں کا تانتا بندھ چکا تھا۔ پنجاب حکومت نے خیر رسمی کارروائی کی ضرورت نہیں سمجھی۔ صحت اور انتظامی امور سے اگر نظر ہٹائیں تو تعلیم کے مسائل اپنی جگہ ہیں۔ میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ کے خلاف ملک بھر میں طلبہ ہفتہ بھر سڑکوں پر رہے۔ 
پنجاب حکومت مگر اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ اس کا ترجمان کون ہو گا۔ گورننس کا نام اب صرف ترجمانی رہ گیا ہے۔ آنے جانے والوں کو خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے۔ وفاقی ہوں یا صوبائی، معاونین خصوصی کی آمدورفت کی خبر کا اب تو نوٹس بھی نہیں لیا جاتا۔ گورننس کے طور پر مشوروں کا انبار البتہ جاری رہتا ہے۔  کیا ہی اچھا ہو یہ مشورے عوام کے بجائے کابینہ میں دیے جائیں اور پھر ان پر عمل بھی کیا جائے۔ 

سردیوں میں البتہ گیس کے بحران اور قیمت میں اضافے کی پیشن گوئیاں ابھی سے ہو رہی ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)

گورننس کا براہ راست تعلق سیاست سے ہے ۔ پی ڈی ایم میں پھوٹ کے بعد حکومت کے لیے سیاسی چیلنج بظاہر نظر نہیں آ رہے تھے۔ مگر یہ حکومت  شاید بور ہو کر ہی اپنے لیے مسائل کھڑے کر لیتی ہے۔ ہر مسئلے کے ساتھ البتہ ان کی ساکھ کو ایک دھچکا لگتا ہے اور اب تو ان میں تواتر بھی آ گیا ہے۔ بلوچستان جہاں پر سب مل جل کر نظام چلا رہے تھے وہاں حکومتی اتحاد میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور وزیراعلیٰ کی اسلام آباد یاترا بھی بحران کو حل نہیں کرا سکی۔ کیا بلوچستان بحران کے اثرات سینیٹ میں بھی ظاہر ہوں گے؟ اس کا اندازہ کچھ عرصے میں ہو جائے گا۔ نیب آرڈیننس پر بھی حکومت اپوزیشن کی طرف البتہ ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ اس سے قانون تو شاید پاس ہو جائے مگر کرپشن کے بیانیے میں وہ جان باقی نہیں رہے گی جس کے الگ سیاسی اثرات ہوں گے۔  
مہنگائی، گورننس اور سیاست، ان تینوں میدانوں میں حکومت فی الحال بیک فٹ پر ہے۔ کیا یہ کچھ عرصے کا بحران ہے یا اس کے دیر پا اثرات ہوں گے ؟ مہنگائی اور گورننس میں تو فوری بہتری کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ اس میں قابل تشویش حکومت کی طرف سے مستقل اور دیرپا حل کی جگہ  ایڈہاک اور فائر فائٹنگ کی پالیسی ہے۔ گورننس میں اگر ایک ہی ٹرینڈ ہے تو  سیاست میں اونچ نیچ اور آنکھ مچولی جاری رہنے کا امکان ہے۔ بقول شخصے سیاست میں ایک ہفتہ بھی لمبا عرصہ ہوتا ہے، اس کا اندازہ آنے والے ہفتے بخوبی ہو جائے گا۔ 

شیئر: