Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین اور قانون: مسئلہ کہاں ہے؟، ماریہ میمن کا کالم

ہمارا آئین بنیادی حقوق کے آرٹیکل 25 میں واضح ہدایت دیتا ہے کہ قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خواتین کے ساتھ پے در پے ہونے والے ہولناک واقعات ہمارے قانونی نظام کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ کیا ہمارے قوانین میں سقم ہیں؟ یا پھر مسئلہ نظام میں ہے؟ اور کیا اصل مسئلہ اور اس کا حل نظام سے بھی باہر ہے؟
ریاست کی سب سے اہم دستاویز آئین ہوتا ہے۔ ہمارا آئین بنیادی حقوق کے آرٹیکل 25 میں واضح ہدایت دیتا ہے کہ قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہیں اور اس کے ساتھ ہی آگے جنس کی بنیاد پر تفریق کرنے پر پابندی لگاتا ہے اور ساتھ یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے جائیں۔ بنیادی حقوق کی دیگر شقوں میں نقل و حرکت، اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی کی بھی ضمانت موجود ہے۔
آئین کے بعد تعزیراتی قوانین میں شہریوں کی جان اور مال کو نقصان پہنچانے پر سزاؤں کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ زیادتی پر خصوصی قوانین موجود ہیں۔ ریپ، گینگ ریپ، سر عام بے حرمتی کی وضاحت بھی ہے اور ان پر سزائیں بھی موجود ہیں۔ کسی بڑے واقعے کے بعد جو بھی حکومت ہو وہ خصوصی اقدامات بھی کرتی ہے۔
زینب الرٹ بل اور ریپ کے خلاف حالیہ زیر بحث قانون بھی اس کی مثال ہیں۔ پھر واقعے کے بعد رسپانس بھی فوری ہوتا ہے۔ جیسے حالیہ واقعات کے بعد پولیس افسران کے خلاف بھی ایکشن ہوا اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ اگر قانون بھی موجود ہے اور کارروائی بھی ہوتی ہے تو پھر مسئلہ کہاں ہے؟ اور خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے ہوئے کیوں محسوس ہوتے ہیں؟ 
سب سے پہلا مسئلہ قوانین کا نفاذ ہے۔ یہ ذمہ داری پولیس اور خصوصی  قوانین جیسے سائبر قوانین کی صورت میں ایف آئی اے وغیرہ کی ہے۔ کیا سڑکوں پر گشت کرتی یا تھانے میں موجود پولیس فورس کے حالات ایسے ہیں کہ خواتین بغیر کسی سفارش یا مدد کے ان کے پاس جائیں اور ان کو انصاف مل سکے۔ اس صورتحال کے ادراک کے بعد بطورخاص بار بار سپیشل یونٹس اور سیل بنائے جاتے ہیں۔ حکومت اور پولیس ان کا خوب چرچا بھی کرتے ہیں۔ کیا ان خصوصی یونٹس کا قیام باقی نظام کی ناکامی کا اعتراف نہیں؟ اور کیا ملک کی 50 فیصد آبادی کے لیے یہ اقدامات کافی ہوں گے؟

کراچی میں مزار قائد پر زیادتی کا شکار ہونے والی رضیہ بی بی کا کیس 13 سال سے زیر سماعت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

  ابھی بھی پولیس میں خواتین اہلکار خال خال نظر آتی ہیں۔ کیا ہونا نہیں چاہیے کہ ہر تھانے اور گشت کرنے والی گاڑیوں میں ایک معقول تعداد خواتین کی ہو۔ مگر ایسا دور دور تک ہوتا نظر نہیں آتا۔ نتیجتا واقعہ ہونے کے بعد پھر محکمے اور ریاست کو حرکت میں آنا پڑتا ہے۔
جرم ہونے پر اس کے اندراج اور تفتیش کے بعد اصل مرحلہ مقدمے اور سزا کا ہے۔ کراچی میں مزار قائد پر زیادتی کا شکار ہونے والی رضیہ بی بی کا کیس 13 سال سے زیر سماعت ہے۔
لاہور کی خدیجہ صدیقی کو جان جوکھوں میں ڈال کر اپنا کیس لڑنا پڑا اور پانچ سال کی سزا بھی تکنیکی بنیادوں پر کم ہو کر ساڑھے تین سال ہو گئی۔ دوران مقدمہ خواتین پر جو سوالات اور کردار کشی ہوتی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔

قانونی نظام اسی وقت خواتین کے تحفظ کا ضامن بنے گا جب اس تک سب کی رسائی آسان اور محفوظ ہوگی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

باوجود اس کے کہ اعلی عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں کہ زیادتی یا ظلم کا شکار عورت کے کردار پر سوال نہ اٹھائے جائیں، مسلسل دشنام طرازی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خواتین کو ملنے والی قانونی مدد اور تحفظ بھی ناکافی ثابت ہوتا ہے۔ ان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ اس میں ان کا مقابلہ نظام سے بھی ہوتا ہے اور اس مائنڈ سیٹ سے بھی جو ان کو آئینی حقوق دینے میں ہر موڑ پر رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ 
قانونی نظام اسی وقت خواتین کے تحفظ کا ضامن بنے گا جب اس تک سب کی رسائی آسان اور محفوظ ہوگی۔ اس میں خواتین مناسب تعداد میں ہوں اور مرد اہلکاروں کی تربیت ایسے ہو کہ وہ خواتین کے خلاف جرائم کی نزاکت سے آگاہ ہوں۔ اس کے بعد تفتیش اور مقدمہ جدید بنیادوں پر بھی ہو اس کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے۔ اور پھر خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کی اسی طرح نگرانی کی جاۓ جیسے سنگین ترین جرائم کے مجرموں کے لیے کی جاتی ہے۔
ان دور رس اقدمات اور اس کے ساتھ آگہی سے ہم اپنے معاشرے کو محفوظ بنا سکیں گے۔ اس کے لیے ریاست کے اداروں کے ساتھ عوام کے نمانئندوں کو بھی سر جوڑنا ہوں گے تا کہ جن حقوق کی آئین نے ضمانت دی ہے وہ عملی طور پر نافذ العمل ہوں سکیں۔
 

شیئر: