Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس: ٹرائل کا آغاز، استغاثہ کے گواہ کا بیان قلمبند

نور مقدم قتل کیس میں باقائدہ ٹرائل کا آغاز ہو گیا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد کے ایڈشنل اینڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں استغاثہ کے گواہان قلمبند کرنے کی کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے۔  
ابتدائی طور پر استغاثہ کے گواہ سینئیر سب انسپکٹر محمد رضا کا بیان قلمبند ہونے کے بعد جرح بھی مکمل کر لی گئی ہے۔ 
دوسری جانب عدالت میں ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل کی جانب سے جائے وقوعہ والے گھر کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کی درخواست دائر کی۔ وکیل نے درخواست کی کہ میری موکلہ کی ضمانت ہو گئی ہے، گھر ان کی ملکیت ہے انہیں استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ 
جج عطا ربانی نے ریمارکس دیے ’آپ کو آپ کا گھر استعمال کرنے سے کس نے روکا ہے؟ گھر سے تو سارے شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں۔‘  
وکیل نے کہ استدعا کی کہ ’آپ تفتیشی آفسر کو حکم دیں تاکہ بعد میں ہم پر کوئی الزام نہ لگ جائے۔‘  
جج نے کہا کہ ’ہم تفتیشی افسر پوچھ کر اس کا فیصلہ ابھی کر دیتے ہیں۔‘  
استغاثہ کے گواہ کا بیان قلمبند ہونے کے دوران ملزمان کے وکیل کی جانب سے مدعی شوکت علی مقدم کی موجودگی پر اعتراض اٹھایا گیا۔ ملزمان کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ عدالت میں گواہ پر جرح جاری ہے جبکہ مقدمے میں دیگر گواہ عدالت میں موجود ہیں جس پر جج عطا ربانی نے مدعی شوکت مقدم کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کر دی۔  
اس کے بعد عدالتی عملے کی جانب سے کمرہ عدالت میں کوئی بھی گواہ موجود نہ ہونے کی یقین دہانی کروانے پر کارروائی آگے بڑھائی گئی۔  
سینیئر سب انسپکٹر محمد رضا نے ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے بیان قلمبند کروایا جس پر ملزمان کے وکلا کی جانب سے جرح کی گئی۔ دوران جرح گواہ نے کہا کہ’ابتدائی طور پر ہاتھ سے مقدمہ درج کیا گیا جس پر وکیل کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ آپ نے کمپوٹرائزڈ ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی۔‘  
استغاثہ کے گواہ کی جانب سے کہا گیا کہ ابتدائی طور پر مقدمہ ہاتھ سے درج کیا جاتا ہے جس کے بعد کمپیوٹرائیزڈ ایف آئی آر بھی درج کی جاتی ہے۔  
ٹرائل کے دوران پہلے گواہ پر تقریبا ایک گھنٹے تک جرح جاری رہی جس میں مقدمہ درج کرنے اور وقوعے کے روز پولیس سٹیشن میں ہونے والی کارروائی سے متعلق سوالات کیے گئے۔  
سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو بھی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ 

عدالت نےشہریار نواز خان کو مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کا وکیل مقرر  کیا، اس دوران ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں وکیل سے ملاقات کی اس دوران مرکزی ملزم نے کمرہ عدالت میں حسب معمول کچھ بولنے کی کوشش کی تو  پولیس اہلکاروں فورا ملزم کو کمرہ عدالت سے لے کر روانہ ہوگئے۔  
گواہ کا بیان قلمبند ہونے اور حرح مکمل ہونے کے بعد جج عطا ربانی نے ملزم کے وکیل عابد اکرم قریشی سے استفسار کیا کہ ’آپ نے مدعی (شوکت علی مقدم) کی موجودگی پر اعتراض کیوں کیا؟ آج تو ان کا بیان بھی قلمبند نہیں ہونا تھا۔‘  
وکیل نے کہا کہ دوران جرح کچھ چیزیں ایسی سامنے آسکتی ہیں جس پر گواہ کا عدالت میں موجود ہونے سے کیس متاثر ہو سکتا ہے، اس لیے عدالت میں تمام گواہان کی موجودگی پر اعتراض کیا گیا۔  
عدالت نے عامر شہزاد نقشہ نویس، بشارت فنگر پرنٹس ،عابد لطیف کمپیوٹر آپریٹر اور اقصی رانی کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ 
اس سےقبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی جانب سے ٹرائل کورٹ کو کارروائی روکنے اور شواہد اور گواہان کے ریکارڈ کیے گئے بیانات فراہم کرنے کی مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی جانب سے شواہد اور گواہان کے بیانات کا ریکارڈ ملزمان کو فراہم کرنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ ٹرائل کورٹ کو کارروائی روکنے سے متعلق درخواست پر سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کر دی تھی۔

شیئر: