Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں سیاسی پارہ ہائی، جام کمال اور مخالفین میں سیاسی جنگ جاری

بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ فوٹو بلوچستان اسمبلی
بلوچستان میں سیاسی پارہ تیزی سے چڑھ رہا ہے۔ حکومت مخالف ارکان نے اسمبلی کے چار غیر حاضر ارکان کو حبس بے جا میں رکھنے کا الزام عائد کرنے کے بعد کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حامی باقی 34 ارکان اسمبلی نے سپیکر میرعبدالقدوس بزنجو کے گھر پر پناہ لے لی ہے۔
یہ بات بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کی جانب سے نامزد کیے گئے پارلیمانی لیڈر ظہور احمد بلیدی نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں بتائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئی جی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ ارکان اسمبلی کو بازیاب کرائیں اور جام کمال کے دباؤ کے آگے جھکنے کے بجائے ہمیں سکیورٹی فراہم کریں۔
وزیراعلیٰ جام کمال نے الزامات کے رد عمل میں کہا ہے کہ مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈے کی سیاست کر رہے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں، جو ارکان اپنی مرضی سے اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے انہیں لاپتہ اور مغوی قرار دیا جا رہا ہے۔
’لاپتہ قرار دیے گئے ارکان میں سے ہی ایک نے خود اسمبلی میں آکر تردید کی اور خاتون رکن اسمبلی نے ٹوئٹر پر بیان  جاری کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مخالفین نے سپیکر کو درخواست جمع کرائی ہے جن پر ان افراد کے بھی دستخط ہیں جنہیں یہ کہہ رہے ہیں کہ غائب ہیں یا اغوا ہوئے ہیں، یہ عجیب طریقہ کار ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ سیاست میں بھی کچھ روایات ہیں، جھوٹ اور منفی پروپیگنڈہ کی بنیاد پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، اگر انہیں اپنے نمبرز پر اعتماد ہے تو چار پانچ دن کا انتظار کریں ووٹنگ ہوجائے گی اورسب کچھ واضح ہو جائے گا۔
ناراض گروپ کی جانب سے لاپتہ قرار دی گئی ایک اور خاتون رکن اسمبلی ماہ جبین شیران کا بیان بھی سامنے آگیا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر 25 اکتوبر کو رائے شماری ہوگی۔ فوٹو آن لائن

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ ’کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے میں کل اسمبلی میں نہیں پہنچ سکی۔ الحمدللہ میں ٹھیک اور محفوظ ہوں۔ ہمارے سیاسی معاملات پر مذاکرات چل رہے ہیں فیصلے بلوچستان اور اس کے عوام کے حق میں ہوں گے۔‘
اس سے پہلے بشریٰ رند نے بھی ٹوئٹر پر بیان دیا تھا کہ وہ علاج کے لیے اسلام آباد گئی ہیں۔ جب کہ ایک اور رکن لالہ رشید نے اسمبلی اجلاس میں تاخیر سے پہنچنے کے بعد بتایا تھا کہ وہ لاپتہ نہیں تھے، بیماری کے علاج کے لیے دم کرانے گئے تھے اس لیے اجلاس میں پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔
خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں بدھ کو وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض گروپ نے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی  تھی۔ قرارداد پیش کرنے کے حق میں 33 ارکان نے ووٹ دیا تھا۔
وزیراعلیٰ جام کمال مزید اقتدار میں رہیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ بلوچستان اسمبلی کے 25 اکتوبر کے اجلاس میں ہوگا جس میں قرارداد پر رائے شماری ہوگی۔
بلوچتان اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 65 ہے۔ آئین کی شق 136 کے تحت عدم اعتمادی کی قرارداد کی منظوری کے لیے اسمبلی کی سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی سادہ اکثریت 33 بنتی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جمعیت علماء اسلام کے رہنما ملک سکندر ایڈوکیٹ نے جمعرات کو میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی اکثریت نے جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اب انہیں مزید حکمرانی کا حق نہیں۔

 اسمبلی کے چار غیر حاضر ارکان کو حبس بے جا میں رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ فوٹو ٹوئٹر بشریٰ رند

تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن انتظار کرے، تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہوگی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
انہوں نے جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو پی ڈی ایم کی چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس چال میں ہمارے کچھ دوست بھی پھنس گئے ہیں ہم انہیں منانے کی کوشش آخری دم تک کریں گے، امید ہے کہ ووٹنگ والے دن وہ ہمارا ساتھ دیں گے۔
ادھر ظہور احمد بلیدی کو بلوچستان اسمبلی میں باپ پارٹی کا پارلیمانی لیڈر مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن سیکریٹری صوبائی اسمبلی نے جاری کر دیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ’سپیکر بلوچستان اسمبلی نے بی اے پی کے بارہ اراکین کی جانب سے موصول شدہ تحریری دستخط شدہ درخواست پر ظہور بلیدی کو بی اے پی کا پارلیمانی لیڈر ڈکلئیر کیا ہے۔‘
وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کے حامی باپ پارٹی کے ارکان نے ظہور بلیدی کے بحیثیت پارلیمانی لیڈر تقرر پر اعتراض اٹھایا ہے۔ 
وزیرداخلہ ضیاء لانگو کی سربراہی میں جام کے حامی ارکان نے وزیراعلیٰ کا ایک خط سپیکر اور سیکریٹری اسمبلی کے پاس جمع کرایا۔ 
خط میں وزیراعلیٰ نے مطالبہ کیا ہے کہ ظہور بلیدی کو پارلیمانی لیڈر نامزد کرنے سے متعلق دی گئی درخواست پر دستخط بادی النظر میں جعلی ہیں اس لیے جانچ کرائی جائے۔

شیئر: