Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض میں 70 کی دہائی کا کیفے جو کھانے کے ساتھ ماضی کی طرف لے جاتا ہے

کیفے کا نیا وینیو 70 کی دہائی سے پرانی چیزوں سے سجا ہوا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم 70 کی دہائی کا کیفے ریٹرو فرنشننگ، سجاوٹ، کافی، پوسٹرز اور کھانے کے ساتھ ماضی کی طرف لے جانے والا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق بہت سے باشندوں کے لیے پرانی یادیں چائے یا سوڈا پاپ کے لیے بیٹھتے ہی واپس آجاتی ہیں۔
سیونٹیز کیفے کے بانی بندرالقریشی نے کہا  کہ’ہم 70 کی دہائی کو تھوڑا سا زندہ کرنا چاہتے تھے اورکمیونٹی کی کچھ دلچسپ اور نئی خدمت کرنا چاہتے تھے۔‘

پرانی یادیں چائے یا سوڈا پاپ کے لیے بیٹھتے ہی واپس آجاتی ہیں۔ ( فوٹو عرب نیوز)

انہوں نے 70 کی دہائی کو اپنے موضوع کے طور پر کیوں منتخب کیا کے سوال پر القریشی نے کہا  کہ ’مجھے 70 کی دہائی کی ہر چیز پسند ہے۔ موسیقی، کپڑے ہر چیز۔ یہ ایک عظیم تاریخی دور تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مملکت نے اربنائزیشن میں تیزی دیکھی اور اپنے تیل اور دیگر صنعتوں کی سعودائزیشن کی طرف بڑے اقدامات کیے۔‘
نیا وینیو 70 کی دہائی سے پرانی چیزوں سے سجا ہوا ہے اور النخیل ضلع میں کھلنے کے بعد سے کافی ہلچل پیدا کیے ہوئے ہے۔
القریشی نے کہا کہ ’لوگوں کا ردعمل بہت اچھا رہا۔ ہمارے علاقے کے ارد گرد بہت سی مقامی کافی شاپس بکھرے ہوئے ہیں لہذا جو تبصرے ہمیں اکثر ملتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس طرح کا ایک منفرد کیفے ہونا کتنا اچھا ہے۔ ہر ایک نے سجاوٹ اور پرانی یادوں کو پسند کیا جو اس سے متاثر ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ شروع میں کیفے کا خیال بزرگوں، ریٹائرڈ  افراد اور ان لوگوں کو راغب کرنا تھا جو سکون کے خواہاں تھے۔

ان لوگوں کو راغب کرنا تھا جو سکون کے خواہاں تھے۔ ( فوٹو عرب نیوز)

ریڈیو ٹی وی، ریڈیو، پرانے اداکاروں اور موسیقاروں کی تصاویر اور مرحوم شاہ خالد بن عبدالعزیز سے لے کر مصری گلوکارہ ام کلثوم تک کے اعداد و شمار کے پوسٹر انٹیریئر کو سجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کا  مقصد سادہ سجاوٹ، اعلی معیار کی مصنوعات اور مناسب قیمتوں کے ذریعے ایک منفرد، مستند اور پائیدارماحول پیدا کرنا تھا۔ میں ریاض کے پرانے دور سے متاثر تھا اورچاہتا تھا کہ میرا کیفے ایک میوزیم بن جائے تاکہ سب لطف اندوز ہوسکیں۔‘
القریشی کے باقاعدہ گاہکوں میں سے ایک ریاض کی کلاسیکل کار لیگ کے سربراہ  فارس العقیل نے کہا کہ اس کیفے کے پرانے دروازے سے چہل قدمی گاہکوں کو 70 کی دہائی میں واپس لاتی ہے جو ایک حقیقی پرانی تجربہ پیش کرتی ہے۔

ٹی وی، ریڈیو، پرانے اداکاروں اور موسیقاروں کی تصاویر انٹیریئر کو سجاتے ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’ان لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھنا بہت اچھا ہے جو داخل ہوتے ہی اس دور میں رہتے تھے۔ آپ بتا سکتے ہیں کہ یہاں کی ہر چیز انہیں اچھے پرانے دنوں کی یاد دلاتی ہے۔‘
کیفے کے باقاعدہ سرپرست سعودی مصنف علی سعید نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دارالحکومت میں ان کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔
’میں ہمیشہ ریاض آنے والے لوگوں کو اس کی سفارش کرتا ہوں۔ آخری مہمان جو میں یہاں لایا تھا وہ عراقی ناول نگار، شاعر،سکرین رائٹراور ڈاکومنٹری فلمساز احمد سدوی تھے جنہوں نے 2014 میں عربی افسانے کا بین الاقوامی انعام اپنے ناول ’فرانک سٹائن بغداد‘ کے لیے جیتا تھا۔‘

شیئر: