Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کی اے پی ایس کیس میں طلبی، ’حکومت ذمہ داروں کے خلاف اقدامات کرے‘

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت آرمی پبلک سکول کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے جبکہ وزیراعظم نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بدھ کو آرمی پبلک سکول کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو آج ہی طلب کیا تھا جس پر کچھ دیر بعد وزیراعظم عدالت پہنچے۔
وزیراعظم کے سپریم کورٹ پہنچنے پر جسٹس اعجاز الاحسن نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا 2014 میں واقعہ ہوا، سات سال گزر گئے ہیں، لواحقین چاہتے ہیں کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ جب واقعہ ہوا تو وہ فوراً پشاور پہنچے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے دریافت کیا ’ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا۔'
عمران خان نے بتایا کہ میں اس وقت وزیراعظم نہیں تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا ’آپ اب اقتدار میں ہیں، آپ نے مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے کیا کیا؟'
اس موقع پر جسٹس قاضی امین نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم سے کہا ’آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔‘

چیف جسٹس گلزار احمد نے دریافت کیا ’ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبے میں ہماری حکومت تھی اور جو مداوا کر سکتی تھی اس کی جانب سے کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا ’والدین کہتے ہیں کہ ہم کو امداد نہیں چاہیے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم سے کہا ’ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ کارروائی کی جائے گی تاکہ بچوں کے والدین کو تسلی ہو کہ عدالتوں اور حکومت اے پی ایس واقعے کو نہیں بھلایا‘
سماعت کے بعد آرمی پبلک سکول از خود نوٹس کیس چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
قبل ازیں بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل خالد جاوید سے پوچھا کہ وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟
اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 'وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ انہیں اب عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔'
اس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟
'وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے۔ ایسے نہیں چلے گا۔'
دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ بھی ہوا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے۔ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو سکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے، چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی، اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ’اے پی ایس واقعے سے پوری قوم کو شدید دھچکا لگا۔' (فوٹو: اے ایف پی)

اے پی ایس کے متاثرین کے وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت نے واضح آرڈر کیا تھا اب تک ہدایات لے کر کیوں آگاہ نہیں کیا؟
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہ اپنے ضمیر کی آواز سنیں۔
جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا 'عدالت جو حکم کرے گی قبول ہے کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اے پی ایس واقعے سے پوری قوم کو شدید دھچکا لگا، ہمارے بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔‘

شیئر: