Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس کے ساتھ حکومت بات کر رہی ہے: عمران خان

وزیر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی کئی گروپوں کا مجموعہ ہے اور کچھ سے بات چیت جاری ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انھیں معاف کیا جا سکتا ہے۔
عالمی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اصل میں پاکستانی طالبان کے کچھ گروپس امن اور مفاہمت کے لیے پاکستان کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی کچھ گروپوں کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔‘
خیال رہے پاکستان کے صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ مہینے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دیں تو حکومت اس کے ارکان کو عام معافی دینے کے لیے تیار ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹی پی کئی گروپوں کا مجموعہ ہے اور کچھ سے بات چیت جاری ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا افغان طالبان ان مذاکرات میں مدد کر رہے ہیں تو وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ چونکہ مذاکرات افغانستان میں ہورہے ہیں اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان کی مدد سے ہورہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کا ردعمل

وزیراعظم عمران خان کے مذاکرات کے حوالے سے بیان پر تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک منظم تحریک ہے جو گروپ بندی کا شکار نہیں ہے تحریک کی صرف ایک اجتماعی پالیسی ہے اس پالیسی سے کوئی بھی انحراف نہیں کر سکتا۔
میڈیا کو جاری بیان میں ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی کا کہنا تھا کہ ‘تحریک طالبان پاکستان نے کہیں پر بھی فائربندی کا اعلان نہیں کیا۔‘ ’بامعنی مذاکرات کے متعلق ہماری پالیسی واضح ہے۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو مشروط معافی دیے جانے کے بیان کے جواب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ ’معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔‘
اس سوال پر کہ کیا یہ بات چیت ان کے ہتھیار ڈالنے پر ہو رہی ہے عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ ’مفاہمتی عمل‘ کے بارے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں ’ہم انھیں معاف کر دیں گے اور وہ عام شہری بن جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ وہ ’معاملات کے عسکری حل کے حق میں نہیں‘ ہیں اور کسی قسم کے معاہدے کے لیے پرامید ہیں تاہم یہ ممکن ہے کہ پاکستانی طالبان سے بات چیت ’نتیجہ خیز ثابت نہ ہو لیکن ہم بات کر رہے ہیں۔

2007 میں کئی مسلح تنظیموں کے مجموعے کے طور پر ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی اضلاع میں سامنے آئی. (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے جب 2007 میں کئی مسلح تنظیموں کے مجموعے کے طور پر ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی اضلاع میں سامنے آئی اور پاکستانی فوجیوں اور سویلین افراد کو قتل کرنا شروع کیا تو حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
ٹی ٹی پی نے راولپنڈی میں پاکستان آرمی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا تھا اور پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سو سے زائد بچوں کو قتل کیا تھا۔
 اسی گروپ ہی نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی قبل کی تھی۔
وزیر اعظم کے بیان پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ پی پی پی نے ان مذاکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو بے خبر رکھنے پر حکومت پر کڑی تنقید کی ہے
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بحث ہورہ ہے۔
اے این پی کے سابق ایم این بشری گوہر نے کہا کہ ’کیا پی ٹی آئی اسی طرح اسلام آباد میں حکومت اپنے شدت پسند ونگ ٹی ٹی پی کو سونپ دے گی جس طرح اس نے طالبان دہشت گردوں کو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سہولت دی؟ ان (وزیراعظم) کا بیان دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے خاندانوں کی توہین ہے۔ کیا کٹھ پتلی وزیراعظم نے اے پی ایس میں شہید ہونے والوں کے والدین سے بات کی؟‘

 

بشری گوہر نے کہا کہ ’کیا پی ٹی آئی اسی طرح اسلام آباد میں حکومت اپنے شدت پسند ونگ ٹی ٹی پی کو سونپ دے گی جس طرح اس نے طالبان دہشت گردوں کو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سہولت دی؟ ان (وزیراعظم) کا بیان دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے خاندانوں کی توہین ہے۔ کیا کٹھ پتلی وزیراعظم نے اے پی ایس میں شہید ہونے والوں کے والدین سے بات کی؟‘
یپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ’حکومت کہتی ہے کہ طالبان کو ایمنسٹی دیں گے۔ آخر حکومت انہیں ایمنسٹی کیسے دے سکتی ہے، طالبان اے پی ایس، شہید بی بی اور ہمارے ہزاروں افراد کی شہادت کا سبب ہیں۔‘
واضح رہے جب 2007 میں کئی مسلح تنظیموں کے مجموعے کے طور پر ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی اضلاع میں سامنے آئی اور پاکستانی فوجیوں اور سویلین افراد کو قتل کرنا شروع کیا تو حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔
ٹی ٹی پی نے راولپنڈی میں پاکستان آرمی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا تھا اور پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سو سے زائد بچوں کو قتل کیا تھا۔
 اسی گروپ ہی نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی قبل کی تھی۔

شیئر: