Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توشہ خانہ کیس: ’حساس تحفے بے شک پبلک نہ کریں باقی عمل شروع کرنا ہوگا‘

جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ’میں تو کہتا ہوں کہ جو تحائف لوگ گھروں کو لے گئے ان کو بھی واپس میوزیم میں رکھیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت نے توشہ خانہ میں وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی معلومات کی تفصیلات جمع کروانے کے حوالے سے ایک بار پھر مہلت مانگی ہے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’حساس تحفے بے شک پبلک نہ کیے جائیں لیکن باقی تحائف کا پراسیس تو شروع کرنا ہوگا۔‘
جمعرات کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وفاقی حکومت کو آٹھ دسمبر تک توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے کے خلاف دلائل دینے کی ہدایت کر دی ہے۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل مصروفیت کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے اس لیے وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی کہ اٹارنی جنرل خود اس کیس میں دلائل دیں گے، وقت دیا جائے۔
یاد رہے کہ یہ تیسرا موقع ہے کہ وفاقی حکومت نے توشہ خانہ تحائف کی تفصیل کے خلاف دلائل کے لیے مہلت مانگی ہے تاہم درخواست گزار کے وکیل رانا عابد نذیر نے استدعا کی ’اتنا وقت نہ دیا جائے یہ کیس ختم یا غیر موثر ہو جائے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ غیر موثر کیسے ہو گا تو درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’اگر وزیراعظم عمران خان عہدے پر نہ رہیں یا کسی اور وجہ سے درخواست غیر موثر ہونے کا خدشہ ہے۔‘
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ’وزیراعظم نہ بھی رہیں تو بھی آپ کی درخواست غیرموثر نہیں ہو گی۔ یہ صرف وزیراعظم کے لیے نہیں ہر ایک کے لیے ہونا چاہیے۔ حساس تحفے بے شک پبلک نہ کیے جائیں لیکن باقی تحائف کا پراسیس تو شروع کرنا ہو گا۔‘

عدالت نے وفاقی حکومت کو آٹھ دسمبر تک توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے کے خلاف دلائل دینے کی ہدایت کر دی (فوٹو: کابینہ ڈویژن)

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’قانون سب کے لیے ہے، اگر عدالت احکامات جاری کرتی ہے تو ہم عمل درآمد کریں گے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے عمل درآمد سے روکا ہے آپ ایک درخواست دائر کریں۔ جسٹس میاں گل حسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’آپ حکومت ہیں میں تو کہتا ہوں کہ جو تحائف لوگ گھروں کو لے گئے انہیں بھی واپس میوزیم میں رکھیں۔‘
’اگر مجھے شیلڈ ملتی ہے تو ہائی کورٹ میں لگاؤں گا، ساتھ تو نہیں لے جاؤں گا۔ بیرون ملک سے ملنے والے تحائف میوزیم میں لگے ہوں تو لوگ بھی خوش ہوں گے۔ ایک ایرانی قالین ملے تو وہ بھی میوزیم میں کیوں نہیں رکھا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ آپ کر کیا رہے ہیں؟ بہت ساری چیزوں کی تاریخی اہمیت ہوتی ہے۔‘
عدالت نے وفاقی حکومت کو توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات پبلک کرنے کے خلاف دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آٹھ دسمبر تک ملتوی کر دی۔

شیئر: