Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دفاعی تحفہ ہو تو بے شک نہ بتائیں، ہار تحفے میں ملا تو پبلک کرنے میں حرج کیا؟‘

عدالت کا کہنا تھا کہ ’حکمرانوں کو ملنے والے تحائف ان کے نہیں بلکہ عوام کے ہیں۔‘ (فوٹو: کابینہ ڈویژن)
حکومت کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات عام نہ کرنے کے فیصلے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ’اگر کوئی دفاعی تحفہ ہو تو بے شک نہ بتائیں، لیکن ہر تحفے کو پبلک کرنے پر پابندی کیوں؟
بدھ کو سماعت کے دوران حکومت نے پھر مہلت مانگ لی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’اگر کسی ملک نے ہار تحفے میں دیا تو پبلک کرنے میں کیا حرج ہے؟ حکومت دیگر ممالک سے ملنے والے تحائف نہ بتا کر کیوں شرمندہ ہورہی ہے؟‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’حکمرانوں کو ملنے والے تحائف ان کے نہیں بلکہ عوام کے ہیں۔ اگر کوئی عوامی عہدہ نہ ہو تو کیا عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو تحائف ملیں گے؟'
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’حکومت کیوں تمام تحائف کو میوزیم میں نہیں رکھتی؟ حکومت کو چاہیے گذشتہ 10 سالوں کے تحائف پبلک کر دے۔ حکومت یہ بھی بتائے کہ کتنے تحائف کا ایف بی آر سے تخمینہ لگوایا ؟‘
واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان کو ملنے والے تحائف کی شہری کو تفصیلات فراہم کرنے کے انفارمیشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کے بعد حکومت نے دفاعی پوزیشن اختیار کر لی تھی۔
گذشتہ ماہ کابینہ ڈویژن نے انفارمیشن کمیشن آف پاکستان کے حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ سربراہان مملکت کے درمیان تحائف کا تبادلہ ان ممالک کے درمیان تعلقات کا عکاس ہوتا ہے۔
’ان تحائف کی تفصیل جاری کرنے سے میڈیا ہائپ بنے گی اور غیر ضروری خبریں پھیلیں گی جس سے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔‘

شیئر: