Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈراپ کیچز کی کہانی: جب عمران خان نے کیچ ڈراپ کیا اور وسیم اکرم ہیٹرک نہ کر سکے

وسیم اکرم اور وقار یونس نے حسن علی کے ڈراپ کیچ پر بڑی متوازن گفتگو کی۔ فوٹو: سکرین گریب
آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں، آسٹریلیا سے پاکستان ٹیم کی شکست کے بعد، ایک ٹی وی چینل پر وسیم اکرم، وقار یونس، مصباح الحق اور وہاب ریاض کا  تجزیہ سننے کا اتفاق ہوا۔ اس پروگرام میں حسن علی سے  کیچ ڈراپ ہونے پر بھی بات ہوئی۔
وسیم اکرم اور وقار یونس نے اس معاملے پر بڑی متوازن گفتگو کی۔ ان کا موقف تھا کہ ایک کیچ  کی وجہ سے شکست کا سارا ملبہ حسن علی پر ڈالنا قرینِ انصاف نہیں۔ مصباح الحق اور وہاب ریاض بھی ان سے متفق نظر آئے۔
اس پینل میں وہاب ریاض کو دیکھ کر 2015 ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل کی یاد آئی، جس میں انھوں نے بہت یادگار سپیل کیا تھا۔ ڈیوڈ وارنر اور مائیکل کلارک کو پویلین کی راہ دکھانے کے بعد ان کے جذبے کو اور مہمیز ملی۔
اب  نئے بلے باز شین واٹسن کو ان کے قہر کا سامنا تھا۔ انھوں نے وہاب کی ایک شاٹ پچ گیند کو ہُک کرنے کی کوشش کی تو گیند بلے کے اوپری کنارے کو چھوتی ہوئی فائن لیگ کی طرف گئی جہاں راحت علی نے آسان کیچ چھوڑ دیا۔ اس وقت واٹسن نے چار رنز بنائے تھے۔ ان کے آؤٹ  ہونے کی صورت میں آسٹریلین ٹیم  کے 83 رنز پرچارکھلاڑی آؤٹ  ہوجاتے اور وہ بہت زیادہ دباؤ میں آ جاتی۔
وہاب ریاض کے واٹسن پر تیکھے وار جاری رہے اور وکٹ پر ٹھہرنا ان کے لیے عذاب بن گیا، لیکن وہ اپنی وکٹ بچانے میں کامیاب رہے۔
 پاکستان میچ تو ہار گیا لیکن وہاب ریاض کی تیزرفتار بولنگ کی دھاک بیٹھ گئی۔ ماضی کے عظیم کرکٹروں نے ان کی بولنگ کو بہت سراہا۔ آسٹریلیوی سرزمین پر یہ پرفارمنس شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں نقش ہو گئی۔
 2015 کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں وہاب ریاض کی محنت  اکارت ہونے کے بارے میں آپ نے جان لیا۔ اس سے پہلے 2011 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں انڈیا کے خلاف، پاکستانی فیلڈروں نے سچن تندولکر کے چار کیچ گرائے اور وہ 85 رنز بنا کر مین آف دی میچ ٹھہرے اور وہاب ریاض کا آدھی ٹیم کو آؤٹ کرنا بھی پاکستان کے کام نہ آ سکا۔

وہاب ریاض نے 2015 کے ورلڈکپ کے کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف یادگار سپیل کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

راحت علی اور حسن علی سے کیچ ڈراپ ہونے کے واقعات کا تعلق کرکٹ کے دور جدید سے ہے۔ یہ واقعات لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں۔ اب ہم آپ کو پاکستان کرکٹ کے ابتدائی زمانے کی طرف لیے چلتے ہیں جب فیلڈنگ کی صورت حال اس قدر دگرگوں تھی کہ چراغ حسن حسرت کو کہنا پڑا:
’ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے تو گیند طشتری میں سجا کر پیش کرنا چاہیے کہ حضور اٹھا کر کیچ کر لیجیے۔‘
حسرت کے اس بیان کی اصابت دو مثالوں سے ثابت ہو جائے گی۔
سنہ 1952میں لکھنؤ میں پاکستان نے اپنی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ جیتا۔ انڈین ٹیم کے کپتان لالہ امر ناتھ تقسیم سے پہلے ایک زمانے میں لاہور میں رہ چکے تھے۔ اس شہر کے محاورے سے اچھی طرف واقف تھے۔ وہ کریز پر پہنچے تو فضل محمود نے فاسٹ بولر محمود حسین سے پنجابی میں کہا:
’مودے ایہدا سر پاڑ دے‘ (محمود اس کا سر(باؤنسرسے) پھاڑ دو۔)
فضل محمود جب خود لالہ امرناتھ کو بولنگ کرنے آئے تو سکوئر لیگ پر ذوالفقار احمد کو کھڑا کر کے کیچ کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ اس کے بعد حکمت عملی کے تحت  باؤنسر کرایا تو اس سے بچنے کی کوشش میں گیند لالہ امرناتھ کے بلے سے لگ کر ذوالفقار احمد کی طرف گئی تو انھوں نے  آسان کیچ گرا دیا۔ امرناتھ نے ذوالفقار احمد سے ازراہ تفنن  کہا کہ ’ایسا آسان  کیچ تو میری بیوی بھی پکڑ لیتی۔‘
لکھنؤ ٹیسٹ کی جیت اس اعتبار سے بہت اہم تھی کہ اس سے پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی کامیابیوں کا کھاتہ کھولا لیکن اوول ٹیسٹ میں انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر چت کرنا ایک نووارد ٹیم کا وہ کارنامہ تھا جس نے دنیائے کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

سنہ 2016 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں سعید اجمل اور شعیب ملک کے درمیان کیچ کے وقت مضحکہ خیز صورتحال دکھائی دی۔ فوٹو: سکرین گریب

خیر سے اس ٹیسٹ میں بھی پاکستانی فیلڈروں کی کارکردگی بڑی ’مثالی‘ رہی۔ میچ کے آخری مراحل میں انگلینڈ کے کھلاڑی وارڈل کے مسلسل تین گیندوں پر کیچ پکڑنے سے فیلڈروں نے پہلو تہی کرکے کیچ چھوڑنے کی ہیٹ ٹرک ہی کر ڈالی جس کو ممتاز رائٹر پیٹر اوبورن نے پاکستان کرکٹ پر اپنی کتاب wounded Tiger میں A nerve-wracking reverse hat-trick قرار دیا ہے۔
اوول ٹیسٹ میں پاکستانی وکٹ کیپر امتیاز احمد نے ایک ملاقات میں مجھے  بتایا کہ اوول ٹیسٹ میں کامپٹن نے شاٹ کھیلا تو گیند ان کے بلے پر صحیح طرح نہ آنے کی وجہ سے فضا میں بلند ہوئی، فیلڈر کے پاس اسے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کے لیے مناسب وقت تھا، وزیر محمد کیچ پکڑنے کے لیے حرکت میں آئے تو ساتھی کھلاڑی کہنے لگے کہ ’وزیر! خدا کا واسطہ ہے، کیچ پکڑ لینا، ملک کی عزت کا سوال ہے‘، ان التجاؤں کا فیلڈر پر کوئی اثر نہیں ہوا اور گیند ان کے ہاتھ میں تو کیا آتی ان کے ماتھے سے جا ٹکرائی۔
پاکستانی کھلاڑیوں کے کیچ ڈراپ کرنے کے بہت سے قصے ہیں جنھیں رقم کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ اس لیے کوئی یہ  قصے کہاں تک بیان کرے۔ بس اب یہ ایک آخری قصہ سن لیجیے۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف دسمبر 1990 میں کھیلے گئے لاہور ٹیسٹ میں عمران خان نے وسیم اکرم کی گیند پر کیچ ڈراپ کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دسمبر 1990 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں وسیم اکرم نے پانچ گیندوں پر چار کھلاڑی آؤٹ کیے۔ گس لوگی اور ڈوجون کو آؤٹ کرنے کے بعد وہ  تیسری گیند پر آئن بشپ کو آؤٹ کر کے  ہیٹ ٹرک کرلیتے لیکن عمران خان نے مڈ آن پر ایک آسان کیچ چھوڑ دیا۔
اگلی دونوں گیندوں پر وسیم اکرم نے مارشل اور کورٹنی واش کی وکٹیں حاصل کر لیں۔ کوئی اور کھلاڑی کیچ ڈراپ کرکے ہیٹ ٹرک سے محروم کرتا تو وسیم اکرم اس کی اچھی طرح خبر لیتے لیکن یہاں ’مجرم‘ ان کے گرو تھے، اس لیے بجز صبر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

شیئر: