Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ کی وجہ سے ہجرت کرنے والے شامی بچے جنہوں نے لبنان کی تاریخ کا پہلا ٹی20 ٹورنامنٹ کھیلا

فٹبال گراؤنڈ کے بیچوں بیچ وکٹیں نصب کر کہ 22 گز کی پچ تیار کی گئی تھی (فوٹو: السامہ)
لبنان کے دارالحکومت بیروت کے کَسکَس فٹبال گراؤنڈ میں جولائی کی ایک دوپہر کا ماحول معمول سے کچھ مختلف تھا۔ مصنوعی گھاس پر نہ فٹبال کے کھلاڑی دوڑ رہے تھے اور نہ ہی شور مچاتے تماشائی کسی گول کا انتظار کر رہے تھے۔
اس روز کَسکَس کے تماشائیوں میں فٹبال کے بجائے کرکٹ کا چرچا تھا۔
فٹبال گراؤنڈ کے بیچوں بیچ وکٹیں نصب کر کے 22 گز کی پچ تیار کی گئی تھی اور گول پوسٹوں کو عارضی باؤنڈری قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ کوئی عام کرکٹ میچ نہیں تھا بلکہ لبنان کی تاریخ کا پہلا باضابطہ ٹی20 ٹورنامنٹ تھا۔
ای ایس پی این کرک انفو کے مطابق کرکٹ لبنان کے لیے اجنبی کھیل ہے۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ محض ایک نام ہے ہاں البتہ انڈیا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے مزدور ہفتے کے اختتام پر کبھی کبھار پارکنگ ایریاز میں بیٹ اور گیند تھامے نظر آتے ہیں۔
مگر اس روز تین ٹیمیں آمنے سامنے تھیں۔ ایک سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی ٹیم، دوسری انڈین اور پاکستانی مزدوروں پر مشتمل ٹیم اور تیسری شام کے پناہ گزین بچوں کی ٹیم، وہ بچے جو جنگ اور تباہی سے نکل کر ایک نئی زندگی کی جستجو میں بیروت کے شتیلہ کیمپوں میں آ بسے ہیں۔
یہ بچے 2018 میں قائم ہونے والی این جی او ’السامہ پروجیکٹ‘ کا حصہ ہیں۔ ’السامہ پروجیکٹ‘ ایک ایسا ادارہ ہے جو شامی پناہ گزینوں کے لیے نہ کہ صرف تعلیم کا بند و بست کرتا ہے بلکہ جنگ و جدل کا سامنا کرنے والی مایوسی کا شکار زندگیوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھی شامل کرتا ہے۔
اس ادارے کی بنیاد برطانوی جرمن جوڑے رچرڈ ویریٹی اور مائیکے زئرووگل نے فلسطینی نژاد قادریہ حسین اور پاکستانی نژاد محمد خیر کے ساتھ مل کر رکھی تھی۔ شروع سے ہی کرکٹ اس تنظیم کے نصاب کا لازمی جزو رہا ہے۔

’السامہ پروجیکٹ‘ ایک ایسا ادارہ ہے جو شامی پناہ گزینوں کے لیے تعلیم کا بند و بست کرتا ہے (فوٹو: السامہ)

رچرڈ ویریٹی برطانیہ کے مشہور سپنر ہیڈلی ویریٹی کے رشتہ دار ہیں اور وہ عربی نہیں جانتے تھے سو ان کے این جی او کے پروجیکٹس میں داخل ہونے والے بچوں کے درمیان تعلق اور بات چیت کا ذریعہ کرکٹ بنا۔ اصول یہ طے پایا کہ جو بچہ ’السامہ‘ میں داخل ہوگا اسے ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ کرکٹ کھیلنی ہوگی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ ترکیب کامیاب ہوگئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ صرف لڑکوں تک محدود نہیں رہی بلکہ ’السامہ‘ میں داخل ہونے والی لڑکیوں نے بھی بیٹ اور گیند سنبھال لی اور بڑے جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں اتریں۔ اسی ٹورنامنٹ کے روز شامی لڑکیوں کی ٹیم نے سری لنکن خواتین کے ساتھ دوستانہ میچ بھی کھیلا۔
ان سب میں ایک نوجوان 18 سالہ لوئے الکدرو اپنی ایک علیحدہ پہچان رکھتا ہے۔ وہ آل راؤنڈر ہیں جبکہ لمبا رن اپ لے کر فاسٹ بولنگ کرواتے ہیں۔
لوئے الکدرو ’السامہ‘ کی ٹیم کے کپتان بھی ہیں۔ انگلینڈ اور انڈین لیگز کھیلنے والی ٹیم سن رائزرز حیدرآباد کے مداح ہیں اور بین سٹوکس کو ہیرو مانتے ہیں۔ مگر ان کی زندگی کی کہانی کرکٹ کے میدان سے کہیں زیادہ کڑی اور کربناک ہے۔

لوئے الکدرو کا بچپن شام کے شہر رقہ میں گزرا (فوٹو: السامپ)

لوئے الکدرو کا بچپن شام کے شہر رقہ میں گزرا، یہ وہی شہر ہے جو کئی برس تک داعش کا گڑھ رہا۔ سات سال کی عمر میں انہوں نے پہلی بار اپنی آنکھوں سے سرعام پھانسی دیکھی۔ جنگ، لاشیں، خون اور بمباری ان کی روزمرہ کی زندگی کی حقیقت بن چکا تھا۔
لوئے الکدرو آج بھی کہتے ہیں کہ ’لاشوں کی بدبو اور جنگ کے مناظر ذہن سے نہیں نکلتے۔‘
2017 میں لوئے الکدرو اپنے خاندان کے ساتھ شام سے نکل کر لبنان آ بسے۔ کیمپ کی زندگی میں غربت اور محنت مزدوری نے گھیر رکھا تھا کہ ایک دن وہ بچوں کے پیچھے پیچھے کھیل کے میدان پہنچ گئے جہاں کرکٹ نے ان کی توجہ کھینچ لی۔ شروع میں گیند سیدھی پھینکنا اور بیٹ سیدھا پکڑنا محال تھا، مگر آج وہ اپنی ٹیم کے کپتان ہیں اور اپنے ہم عمر بچوں کو کرکٹ سکھاتے ہیں۔
’السامہ‘ پروجیکٹ نے اب تک بیروت اور وادی بقاعہ میں تقریبا ایک ہزار بچوں کو کرکٹ کے دائرے میں لایا ہے۔ ان میں سے سو سے زیادہ فاسٹ بولنگ کے باقاعدہ کھلاڑی ہیں۔
’السامہ‘ کی دو لڑکیاں مرام الخضر اور وسال الجابر اس سفر کی روشن مثال ہیں۔

مرام الخضر اور وسال الجابر کرکٹ ٹیم کا حصہ ہیں (فوٹو: السامہ)

مرام حال ہی میں برطانوی سفارتخانے کا ’ایمبیسڈر فار اے ڈے‘ مقابلہ جیت کر کرکٹ کی سفیر بنی ہیں۔
وسال الجابر آف سپنر ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ ’کرکٹ وہ پہلا کھیل ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کھیلتے دکھائی دیے۔ یہ ہمارے معاشرے میں انوکھا تجربہ تھا۔‘
کرکٹ کا انتخاب کرتے وقت دونوں لڑکیوں نے اپنے خاندانوں کو قائل کرنے کے لیے کئی حربے آزمائے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’کرکٹ کھیلنے کے لیے وہ کبھی دوست کے گھر میں پڑھائی کا بہانہ کر کہ نکلتی تھیں تو کبھی برقعہ یا لمبے کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکلتی تھیں تاکہ گراؤنڈ میں پہنچ کر کرکٹ کی کٹ پہنی جا سکے۔‘
آج وسال الجابر اور مرام الخضر کرکٹ سے اس قدر وابستہ ہو چکی ہیں کہ کہتی ہیں ’میدان میں داخل ہوتے ہی سب غم بھول جاتے ہیں، یہ لمحہ ہمارا ہوتا ہے۔‘
کھیل کے میدان سے باہر کی حقیقت سخت ہے۔ شتیلہ کے تنگ و تاریک کمروں میں کئی کئی خاندان اکٹھے رہتے ہیں۔ بجلی کی کمی، صاف پانی کا فقدان اور غیر محفوظ گلیاں معمول کے مسئلے ہیں۔

مرام الخضر اور وسال الجابر کو گھر سے نکلنے میں دشواری ہوتی تھی (فوٹو: السامہ)

گزشتہ برس اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد بہت سے بچے دوبارہ شام لوٹنے پر مجبور ہوئے مگر وہاں حالات اس سے بھی بدتر تھے۔ تب کئی بچوں نے خود فیصلہ کیا کہ وہ واپس بیروت آئیں گے تاکہ تعلیم اور کرکٹ جاری رکھ سکیں۔
کرکٹ پروگرام کو ’ایم سی سی فاؤنڈیشن‘ اور چند نجی ادارے مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھار عالمی کرکٹر ان بچوں سے آن لائن ملاقات بھی کرتے ہیں۔ پروجیکٹ کے بانیوں کا خواب ہے کہ آئندہ برسوں میں شامی قومی ٹیم کو عالمی سطح پر اتارا جا سکے۔
مرام، وسال اور لوئے کے لیے یہ خواب ہی سب کچھ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ سفر آسان نہیں مگر جب ایک اجنبی کھیل نے جنگ کے بیچ ان کی زندگیوں میں امید جگا دی ہے تو پھر خواب دیکھنا کیسے مشکل ہو سکتا ہے؟

شیئر: