Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشترکہ اجلاس: ’آپ سپیکر رہے ہیں، کیا یہ آپ کی اخلاقیات ہیں؟‘

پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات سمیت متعدد قوانین کی منظوری کے لیے بدھ کی صبح سے پارلیمانی راہداریوں میں کافی رونق دکھائی دے رہی تھی۔
موسم میں خنکی کے باوجود حکومت اور اپوزیشن ارکان کے لہجوں میں خاصی تلخی دکھائی دی۔
بدھ کو حکومت اور اپوزیشن نے اپنی اپنی لائن اور لینتھ کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس منعقد کیے۔
وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں 190 سے زائد ارکان نے شرکت کی جبکہ اپوزیشن اتحاد کے اجلاس میں بھی کم و بیش اتنے ہی ارکان موجود تھے۔
وزیر اعظم نے اپنے ارکان کو متحد رہ کر الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانیوں کو جو کثیر زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، کو ووٹ کا حق دینے کے لیے قانون سازی کی ہدایت کی۔ اس اجلاس کے دوران وزیراعظم نے مونس الٰہی کو اپنے ساتھ بٹھائے رکھا۔
اجلاس سے قبل اپوزیشن نے حکومت کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کھلاڑی ہر طرح کے حالات میں میدان میں جیتنے کے لیے اترتے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پوچھا گیا کہ کوئی کھلاڑی ان فٹ تو نہیں ہو گا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’کوئی کیچ ڈراپ نہیں ہو گا۔‘
حکومتی اتحاد کے اجلاس میں ایک وقت آیا کہ چیف وہیپ عامر ڈوگر اور علی زیدی اجلاس سے باہر آ کر ادھر ادھر کمروں میں موجود ارکان کو نکال کر اجلاس میں لے جاتے رہے۔
پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس ختم ہوئے تو ارکان ایوان پہنچنے لگے۔ اجلاس سے قبل حکومتی اور اپوزیشن ارکان باہمی گپ شپ میں مشغول نظر آئے۔
لاہور سے مسلم لیگ ن کے مرحوم رکن پرویز ملک کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک جو کہ خود بھی رکن اسمبلی ہیں، ایوان میں پہنچیں تو خواتین ارکان نے ان سے ملاقاتیں کیں اور ان کے شوہر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔ شائستہ پرویز کافی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر کے ساتھ ایک بجے شروع ہوا۔
جب اجلاس شروع ہوا تو وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور آصف زرداری ایوان میں موجود نہیں تھے۔ اجلاس کے آغاز کے بعد پہلے شہباز شریف اور پھر آصف زرداری ایوان میں پہنچے۔ شہباز شریف نے ان کی نشست پر جا کر سلام دعا کی۔
اجلاس کی کارروائی کا آغاز ہوا اور سپیکر نے بابر اعوان کو انتخابی اصلاحات سے متعلق بل پیش کرنے کا کہا تو اپوزیشن نے شور شروع کر دیا۔
بابر اعوان نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اپوزیشن نے سپیکر سے کہا ہے کہ وہ اس پر مشاورت کرنا چاہتی ہے تو اس بل کو موخر کر دیا جائے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔
اس موقع پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنے طویل خطاب میں ای وی ایم کو Evil Vicious Machine  قرار دے دیا۔
شہباز شریف کے خطاب کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خطاب کیا اور کہا کہ ہم انتخابات کے ذریعے کچھ حاصل کرنے نہیں جا رہے بلکہ ماضی کا گند صاف کرنے جا رہے ہیں۔ 
ان کے بعد جب سپیکر نے بلاول بھٹو زرداری کو بات کرنے کا موقع نہ دیا تو اپوزیشن ارکان نے احتجاج کیا۔ پی پی پی کے رکن عبدالقادر مندوخیل سپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئے۔ اس دوران ان کی سپیکر سے شدید تلخ کلامی ہو گئی۔ سپیکر نے انھیں ایوان سے باہر نکال کر معطل کرنے کی وارننگ دی تو انہوں نے سپیکر کو کہہ دیا کہ آپ کی اتنی اوقات نہیں۔ اس دوران سپیکر شدید غصے میں آ گئے اور بلاول بھٹو سے کہا کہ میں اس کا نام نہیں جانتا لیکن آپ ان کو سمجھائیں۔ 
پی ٹی ایم کے رکن محسن داوڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے لیکن قانون سازی کے وقت قبائلی علاقے سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے گئے۔ 
اجلاس کے دوران بحرین کی سپیکر وفد کے ساتھ کارروائی دیکھنے پہنچیں تو سپیکر نے ان کی آمد کا اعلان کیا۔ شہباز شریف نے عربی میں مہمان سپیکر اور وفد کو خوش آمدید کہا۔ اس پر شاہد خاقان عباسی نے جملہ کسا کہ 'آپ کو عرصے بعد عربی بولنے کا موقع مل گیا۔'
اس کے بعد ایوان میں قانون سازی کا عمل شروع ہوا تو حکومت کو اپوزیشن کے 203 کے مقابلے میں 221 ارکان کی حمایت حاصل ہوئی۔

جب سپیکر نے بلاول بھٹو زرداری کو بات کرنے کا موقع نہ دیا تو پی پی پی کے رکن عبدالقادر مندوخیل سپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اپوزیشن نے گنتی کو چیلنج کیا تو سپیکر نے دوسری مرتبہ پھر گنتی کا حکم دیا۔ اس دوران اپوزیشن ارکان سپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔ اپوزیشن ارکان کے احتجاج کے باعث سارجنٹ ایٹ آرمز اور حکومتی اراکین نے وزیر اعظم کے گرد گھیرا بنا لیا۔ شہباز شریف اپنی نشست سے اٹھ کر تھوڑا دور جا کر شاہد خاقان عباسی کے پاس بیٹھ گئے۔ 
اس شور شرابے کے دوران گنتی کا عمل پورا نہ ہو سکا تو سپیکر نے حکومت اور اپوزیشن ارکان کا لابیوں میں جانے کا کہا لیکن اپوزیشن نے بدستور احتجاج جاری رکھا۔ حکمران اتحاد کے چیف وہپ عامر ڈوگر سپیکر کے پاس گئے اور انھیں کارروائی آگے بڑھانے کا اشارہ کیا تو لیگی رکن مرتضی جاوید عباسی بھی سپیکر کے پاس پہنچ گئے اور انھوں نے سپیکر سے بات کرنا چاہی لیکن سپیکر نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے قومی اسمبلی کے سپیشل سیکرٹری قانون سازی مشتاق احمد کے ہاتھ سے ترامیم اور ایجنڈے کی کاپی چھیننے کی کوشش کی جس کے بعد انہوں نے ایجنڈؑے کی کاپی بھاڑی اور سپیکر کی طرف اچھال دی۔
اس پر سپیکر نے مرتضیٰ جاوید عباسی کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ سپیکر رہے ہیں کیا یہ آپ کی اخلاقیات ہیں؟' 
اس دوران اپوزیشن نشستوں پر ایوان سے واک آؤٹ بارے مشاورت شروع ہو گئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی واک آؤٹ کرنے جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں قائد حزب اختلاف واک آؤٹ کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ باہم مشورے کے بعد اپوزیشن رہنما سپیکر ڈائس پر گئے اور سپیکر سے بات چیت کی۔ جب سپیکر نے بات ماننے سے انکار کیا تو اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی۔ 

شیئر: