Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاہ گرد سے ’شاگرد‘۔۔۔ یہ کیا استادی ہے؟

’شاگرد‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ’علم و ہنر سیکھنے والا‘ کے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔ
جو اپنے جان و دل سے خدمتِ استاد کرتے ہیں
اس شعر کے خالق لالہ مادھو رام جوہر ہیں۔ جنہوں نے میرزا غالب کا عہد پایا، اور میرزا کے ہوتے اپنا الگ رنگ جمایا، یوں اُن کے کتنے ہی اشعار نے ضرب المثل کا مقام پایا۔ سردست ہمیں ان کے شعر مذکور میں لفظ ’شاگرد‘ سے بحث مطلوب ہے۔
’شاگرد‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ’علم و ہنر سیکھنے والا‘ کے ہیں، تاہم گھر یا دُکان کا ملازم بھی ’شاگرد‘ کی تعریف میں داخل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے مترادفات میں تلمیذ، طالب علم، چیلا، نوکر، ملازم، مرید اور معتقد وغیرہ شامل ہیں۔ 
اس ’شاگرد‘ سے ترکیب ’شاگردِ رشید‘ ہے، جو ہدایت یافتہ اور لائق شاگرد کو کہتے ہیں، جب کہ گھریلو نوکر چاکر اور ماتحت عملہ ’شاگرد پیشہ‘ کہلاتا ہے۔ جب کہ ایران میں گھریلو ملازم بچوں کو ’خانہ شاگرد‘ کہتے ہیں۔
شاگرد کے اول معنی کی نسبت سے سیکھنے کا عمل اور دوم معنی کے اعتبار سے خدمت گار کے بیٹھنے کا ٹھکانا ’شاگردی‘ کہلاتا ہے۔ اس سے پہلے کے لفظ ’شاگرد‘ کے لفظی معنی سے بحث کریں، ’شاگردی‘ کی رعایت سے قیصر حیدری دہلوی کا شعر ملاحظہ کریں:
کہاں پہلی سی قیصرؔ رسم شاگردی و استادی
جو اک مصرع بھی کہہ لیتا ہے اب استاد ہوتا ہے
’فرہنگِ نظام‘ کے مؤلف آقا سید محمد علی کے مطابق ہندوستان میں عہدِ مغلیہ کے فارسی گو مسلمانوں نے ’شاگرد‘ کو لفظ ’‘شاہ گرد‘ کا مخفف سمجھا اور بادشاہ کے گرد موجود خدمت گاروں کے دستہِ خاص کو ’شاگرد پیشہ‘ کا نام دیا، یہاں تک کہ نظام دکن کی حکومت میں بھی ’شاگرد پیشہ‘ انہیں معنی میں استعمال ہوا۔ اگر یہ قیاس درست ہے تو ماہرِعلم و فن کے لیے ’شاہ‘ کا استعارہ اور اس کے ’گرد‘ موجود سیکھنے والوں کے لیے ’شاگرد‘ کی ترکیب درست قرار پاتی ہے۔ 

گھر یا دُکان کا ملازم بھی ’شاگرد‘ کی تعریف میں داخل ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دلچسپ بات یہ کہ ’شاگرد‘ کو ’شاہ گرد‘ کا مخفف بتانے کے بعد فرہنگِ نظام کا مؤلف اس خیال کو باطل قرار دیتا ہے اور لفظ ’شاگرد‘ کا ایک مختلف پس منظر بیان کرتا ہے۔ 
مؤلف آقا سید محمد علی کے مطابق شاگرد کے ’شا‘ کی اصل لفظ ’شاس‘ ہے، جس کے معنی حکومت اور تربیت کے ہیں، جب کہ ’گِرد‘ کی اصل اسم مفعول ’کِرت‘ ہے، جس کے معنی ’کیا گیا/ ہوگیا‘ کے ہیں، اسی ’کِرت‘ کی مُحرف صورت ’گِرد‘ ہے، یوں ’شاگرد‘ کے لفظی معنی ’مکمل تربیت یافتہ‘ کے ہیں۔ مؤلف نے ’گِرد‘ کے معنی کی وضاحت کے لیے ’دراب گرد‘ اور ’یزدگرد‘ کی تراکیب بطور مثال پیش کی ہیں، جن کے بالترتیب معنی ’دراب کا بنایا ہوا‘ اور ’خدا کا بنایا‘ ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں اور مزید الفاظ کی پرتیں کھولیں، شاگرد بمعنی ’مرید‘ کی رعایت سے عاشق اکبرآبادی کا ایک عاشقانہ شعر ملاحظہ کریں:
تو سر نہ گوندھ کہ شاگرد ہونے والا ہے
مرا نصیب ترے لمبے لمبے بالوں کا
کسی دانا کا قول ہے کہ اگر کسی قوم کی تاریخ و تمدن سے متعلق کُل کتابیں تلف ہوجائیں، اور فقط ایک لغت باقی رہ جائے، تو بھی اس قوم کے احوال و آثار کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ یوں کہ روزمرہ  اور علمی و ادبی زبان میں موجود سینکڑوں الفاظ، تراکیب، کہاوتیں اور محاورے اپنے ساتھ ایک الگ داستان رکھتے ہیں۔ اس بات کو محاورہ ’گُل چھرّے اُڑانا‘ سے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
’گُل چھرے اُڑانا‘ کے معنی میں ’اللّے تللّے کرنا، عیش وعشرت میں پڑنا، فضول خرچی کرنا اور روپیہ پیسہ برباد کرنا‘ شامل ہے۔
اس محاورے نے اپنے معنی اور اطلاق میں بتدریج وسعت پیدا کی ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے ’گلچھرّے‘ کے لفظی معنی پر غور کریں، یہ لفظ ’گولی اور چھرّے‘ سے مرکب ہے۔

’شکار کارِ بیکاران است‘ یعنی شکار بے کار لوگوں کا کام ہے۔ (فوٹو: فلکر)

واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے عہد عروج میں اکثر وزیروں اور امیروں کے بچوں میں سیر و شکار کا شوق تھا، جس میں کثرت سے گولی بارود چھرّے کا کام پڑتا اور اُس میں ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا تھا۔ خود مختار ہوتے ہی وہ کُھل کھیلتے اور رات دن شکار کے سوا دوسرے کام سے غرض نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے شوقِ شکار کو ناپسند کیا اور اسے بے کار لوگوں کا مشغلہ قرار دیا۔ اس حوالے سے تاریخ میں اس کا قول ان الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے:
’شکار کارِ بیکاران است‘ یعنی شکار بے کار لوگوں کا کام ہے۔
چوں کہ اس شوق میں روپیہ ضائع ہونے کے علاوہ وقت کی بربادی بھی شامل ہے، اس لیے اول اول بے دردی سے روپیہ اُڑانے۔ بیہودہ وقت کھونے اور لہو و لعب میں عمر گنوانے کو ’گُل چھرے اُڑانا‘ کہا گیا۔ ان معنی کے ساتھ لکھنؤ کے مظفرعلی اسیر کا شعر ملاحظہ کریں:
پائی دولت مال مارا قتل کیا مجھ کو کیا
خوب گلچھرّے اڑاتا ہے تپنچا یار کا 
عہد زوال آیا اور حکومت اور ریاست جاتی رہی، تو انگریز سرکار نے ذاتی اسلحہ رکھنے کی ممانعت کردی، یوں بندوقوں اور طمنچوں سے شکار خواب و خیال ہوگیا، ایسے میں عیش و عشرت شراب خوری اور عیاشی دامن گیر ہوئی تو رئیسوں کے بچوں کو اس کی لت پڑ گئی، یوں عیش پرستی ’گُل چھرے اُڑانا‘ قرار پائی۔
بعض لوگ شب برات اور دیوالی کے موقع پر غیر ضروری آتش بازی میں ہزاروں اور لاکھوں روپیہ پھونک دینے کو بھی ’گُل چھرے اُڑانا‘ کا پس منظر بتاتے ہیں، جو بظاہر درست مگر حقیقتاً نادرست ہے۔

شیئر: