Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاگ: کیا آلودگی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے موت کا پیغام ہے؟

ہم اگر کچھ تحقیقی حقائق کو دیکھیں تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق 90 فیصد شہری آبادی آلودہ فضا‏‎‎ میں سانس لے رہی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
انسان اور فطرت کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ یہ رشتہ یقیناً انسان کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ انسان کا فطرت سے اولین تعارف درختوں کے ذریعے ہوا۔
درختوں سے ملنے والی آکسیجن نے نہ صرف انسان کو سانسیں بخشیں بلکہ اسے پناہ، سایہ اور پھل بھی فراہم کیے اور اُس نے اس رشتے کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جہاں درختوں نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے وہاں ندیوں اور دریاؤں نے انسانیت کی پیاس بجھائی اور زمین نے اناج دیا۔
ادب میں فطرت کو انسان کا رفیق کہا گیا ہے جیسے درختوں اور پانی کو حیات اور ہوا کو آزادی کا استعارہ بتایا گیا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ کمزور ہوا ہے۔
کچھ تحقیقی مطالعے بتاتے ہیں کہ پچھلی دو صدیوں میں انسان اور فطرت کا دوطرفہ تعلق 60 فی صد کم ہوا ہے۔
ہم درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں، تروتازہ ہوا اور پرندوں کی چہچہاہٹ کی بجائے ایئر کنڈیشن اور مشینوں کی آوازوں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارا فطرت کے ساتھ صرف جسمانی تعلق نہیں ٹوٹا بلکہ روحانی تعلق بھی ختم ہو گیا ہے۔
ہم نے اپنی زندگی کو سہل بنانے کے لیے دریاؤں، سمندروں کو ناپا، زمین کو چیرا اور آسمان تک جا پہنچے۔ آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ترقی کا تصور ہمارے لیے ایک موذی مرض کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ہم بظاہر تو اپنے لیے سہولتیں پیدا کررہے ہیں لیکن اصل میں ہمارا ماحول اور صحت کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
آج ہماری ترقی کی تعریف بدل گئی ہے، ہم علم، سماجی رشتوں اور فطرت کے ساتھ تعلق کی بجائے مالز، سٹرکوں اور ہائر رائز عمارتوں میں رہنے کو ترقی سمجھتے ہیں۔
وہ شہر جو کبھی باغوں، سبزے اور سمندری ہواؤں کا مسکن تھے، آج گردوغبار، شور، ہر قسم کی آلودگی اور کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
ہماری یہ مصنوعی ترقی درحقیقت ہماری اپنی اور زمین کی تباہی کی ایک دوڑ ہے جسے جیتنے میں ہم اپنی ساری توانائی خرچ کر رہے ہیں۔
ہم اگر کچھ تحقیقی حقائق کو دیکھیں تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق 90 فیصد شہری آبادی آلودہ فضا‏‎‎ میں سانس لے رہی ہے۔

وہ شہر جو کبھی باغوں اور سبزے کا مسکن تھے، آج گردوغبار، شور، ہر قسم کی آلودگی اور کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

صرف پاکستان کی بات کریں تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ فضائی آلودگی کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
شہروں کا درجہ حرارت ہر سال بڑھ رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق درجہ حرارت میں ہر سال اوسطا دو سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔
بارشوں کے غیرمتوازن ہونے کی وجہ سے تباہ کن سیلابی ریلوں کا آنا، کلاؤڈبرسٹ، زیرِزمین پانی کی سطح کا کام اور آلودہ ہونا، خشک سالی کا بڑھنا، سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے ساتھ موت کا کھیل کھیل رہے ہیں بلکہ باقی زمینی حیات پر بھی زندگی کو تنگ کر رہے ہیں۔
یہ مصنوعی ترقی ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ دمہ اور الرجی جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
پھیپھڑوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کینسر کی بیماری عام ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں جو درحقیقت فطرت سے دوری کا نتیجہ ہے۔
ہم زمین کی زرخیزی کی بات کریں تو وہ ہر دن کم ہو رہی ہے۔ جنگی حیات کم ہوتی جا رہی ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کی بہت سی اقسام معدوم ہو چکی ہیں، بعض ہونے کے قریب ہیں۔
دریاؤں، ندی نالوں اور جھیلوں کا پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ موسم اس قدر غیرمتوازن ہوچکے ہیں کہ یا تو اچانک سے سیلاب آ جاتے ہیں یا پھر خشک سالی پیدا ہو جاتی ہے۔

ہمیں شہری جنگلات لگانے چاہییں، ان سے شہروں میں جنگلی حیات لوٹ آئے گی۔ (فائل فوٹو: کیچ فاؤنڈیشن)

ہم اگر اپنی ترقی کی تعریف کو بدل لیں، فطرت کے ساتھ اپنے تعلق کو بحال کر لیں اور پھر سے وہی توازن برقرار ہو جائے تو بہتری کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں شہری جنگلات لگانے چاہییں جیسے کہ میاواکی فارسٹس، ان سے شہروں میں جنگلی حیات لوٹ آئے گی جن کو ہم نے بے دخل کر رکھا ہے اور قدرتی ایکوسسٹم بحال ہو گا۔
پالیسی کی سطح پر سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو ترقی کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔ اپنی نئی نسلوں میں فطرت کے ساتھ تعلق کوپروان چڑھائیں، تعلیم کے ذریعے ان میں یہ شعور اجاگر کریں کہ فطرت کے ساتھ رشتہ جتنا مضبوط ہو گا ہم اتنے ہی سکون میں رہیں گے۔

 

شیئر: