Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیوالی کی خوشی تھی پٹاخوں کا شور تھا: عبدالخالق بٹ کا کالم

’دوالی‘ فارسی کے ’چراغاں‘ کا مترادف ہے۔ فوٹو اے ایف پی
داغوں کی بس دکھا دی دِوالی میں روشنی
ہم سا نہ ہوگا کوئی جہاں میں دیوالیہ
داغوں کے دیوں سے دیوالی منانے والے شاعر ’حاتم علی مہر‘ ہیں، جو پیشہ کے اعتبار قانون دان اور مزاجاً سخن دان تھے۔ آپ میرزا غالب طرف دار ہی نہیں ان کے بے تکلف یار بھی تھے۔
لفظ دِوالی اور دیوالیہ ان دونوں کی اصل سنسکرت کا ’دیپا / दीप ‘ ہے، جس کا آخر حرف (الف) گرا کر ہندی اور اردو میں ’دیپ‘ بنا ہے۔ اسی ’دیپ‘ سے اسم مصغر ’دیپک‘ یعنی چھوٹا چراغ اور صفت ’دیپکا‘ بھی ہے، ’دیپکا‘ کے معنی چاندنی اور روشن کرنا والا کے ہیں۔ ’دیپک‘ کے ذکر سے مومن خاں مومن کا مشہور زمانہ شعر یاد آگیا۔ 
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
اس شعر میں ’ناہید‘ کون ہے اور اس کا ’تان‘ سے کیا تعلق ہے اس بات کی گرہ کُشائی آگے جا کر کرتے ہیں، فی الحال ’دیپا‘ کی بات کرتے ہیں، جو لفظ ’دِوا‘ کی اصل ہے، پھر اسی ’دِوا‘ نے ’دیوا اور دیا‘ کی صورت اختیار کی ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ حرف ’ب‘ کا ’واؤ‘ سے تبادلہ تو عام ہے، مگر ’پ‘ کس طرح ’واؤ‘ سے بدل گیا، یعنی ’دیپا‘ بدل کر ’دِوا‘ کیونکر ہوگیا ؟ تو عرض ہے کہ حرف ’پ‘ اور ’ب‘ ’قریب الصوت‘ الفاظ ہیں، یعنی ان دونوں کی آوازیں باہم ملتی جلتی ہیں، اسی لیے عربی دان فارسی ’پ‘ کو ’بائے عجمی‘ یعنی غیر عربوں کا ’ب‘ کہتے ہیں۔ پھر اس لفظی قربت کو ’پاکستان‘ سے بھی سمجھ سکتے ہیں جو عربی میں ’باکستان‘ ہے۔
خیر ذکر تھا دِوالی کا، اصل میں یہ ایک مرکب لفظ ہے، اس کا پہلا جُز ’دیوا‘ یعنی چراغ اور دوسرا ’بالا‘ یعنی جلانا ہے، یوں دوالی کے معنی ’چراغ جلانا‘ کے ہیں۔ یوں تو لفظی اعتبار سے ’دوالی‘ فارسی کے ’چراغاں‘ کا مترادف ہے، مگر اصطلاح میں دیوالی ہندوؤں کے اُس مشہور تہوار کا نام ہے، جس میں وہ  گھروں اور بازاروں کو چراغوں سے سجاتے، پٹاخے چلاتے اور پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں۔

دوالی کے معنی ’چراغ جلانا‘ کے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

خوشی کا یہ دن روشن کیے جانے والے ’دِوا / دیوا‘ ہی کی نسبت سے ’دوالی / دیووالی‘ کہلاتا ہے۔
اس پہلے کہ آگے بڑھیں ’دیوالی‘ کی نسبت سے انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے نوجوان شاعر ’بشیر مہتاب‘ کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
 دیوالی کی خوشی تھی پٹاخوں کا شور تھا
میں کر رہا تھا اس کی خموشی سے گفتگو
یہ خاموشی اس وقت گہری ہوجاتی ہے، جب چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہوجائے، اور ساہوکار کا دِوالہ پِٹ جائے۔ اردو میں دِوالہ پٹنا اور دِوالہ نکلنا کے محاوروں کا مطلب تاجر کا اعلان مفلسی ہے۔ یوں جس کا ’دِوالہ‘ نکلے اس کو ’دیوالیہ‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے ’دیوالیہ‘ کا لفظ ’مفلسی‘ کا مترادف بن گیا ہے۔
اس بات کو اتر پردیش (انڈیا) کے ’فیض خلیل آبادی‘ کے شعر سے سمجھا جاسکتا ہے، جن کا کہنا ہے:    
اس لیے تھام کے رکھا ہے جنوں کا دامن 
اے خرد ہم ترا دیوالیہ پن جانتے ہیں
دِوالہ اور دیوالیہ کی اس تعریف کے بعد آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان دونوں لفظوں میں ’دِوا‘ کہاں ٹمٹما رہا ہے؟ تو عرض ہے کہ قدیم زمانے میں رواج تھا کہ جس بنیے کو بیوپار میں شدید نقصان ہوتا، وہ ٹَٹ پُونجیا ہوجاتا اور نتیجتاً اپنے ذمہ واجبات ادا کرنے کے قابل نہ رہتا، تو وہ اپنی مفلسی کے اعلان کے طور پر دن ہی کو اپنی دُکان میں دِوا جلا دیتا اور ساتھ ہی اپنا ’تَپَّڑ‘ بھی اُلٹ دیتا تھا (تَپَّڑ ٹاٹ کی اُس گدّی کو کہتے ہیں جس پر بنیا بیٹھتا ہے)۔
اُس کے اس عمل سے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ بنیا کنگال ہو چکا ہے۔

’ناہید‘ فارسی زبان میں زہرہ سیارے کا نام ہے۔ فوٹو اے ایف پی

چوں کہ بنیے اپنی مفلسی کا اظہار دن دھاڑے دِوا جلا کر کرتا تھا، اس لیے اس دِوا کی رعایت سے مفلسی کو ’دِوالہ‘ اور مفلس کو ’دیوالیہ‘ کہا گیا۔ دیکھیں ہاشم عظیم آبادی کیا کہہ رہے ہیں:
سنتے ہیں سیٹھ جی کا دِوالہ نکل گیا
جس مل پہ ان کو ناز تھا وہ مل نہیں رہا
یوں تو ’چراغ‘ کو ’دیے‘ کا مترادف سمجھا جاتا ہے، مگر اہل زبان ان دونوں لفظوں میں فرق ملحوظ رکھتے ہیں۔ وہ یوں کہ چراغ گھی سے روشن ہوتے ہیں اور دیے میں کڑوا تیل پڑتا ہے، پھر خوشی کا اظہار بھی چراغ جلا کرکیا جاتا ہے، اس کے علاوہ نام روشن کرنا اور شہرت و ترقی دینا بھی ’چراغ جلانا‘ کہلاتا ہے۔
چراغ اور دیے کے اس فرق کو علامہ اقبال کی نظم ’باغی مُرید‘ کے اس شعر سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:
ہم کو تو میسّر نہیں مٹّی کا دِیا بھی 
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اب بات کرتے ہیں اس ناہید کی جس کی غیرت کا حوالہ دے کر مومن خان مومن نے ہرتان کو دیپک کہا ہے۔ ’ناہید‘ فارسی زبان میں ایک سیارے کا نام ہے، جسے ’زہرہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس ناہید کا انگریزی نام وینس (Venus) ہے، وینس یونانی دیو مالا میں خوبصورتی اور خوش نغمگی کی ’دیوی‘ ہے۔ اس لیے اس ناہید (وینس) کو مطربہِ فلک یعنی آسمان کی گلوکارہ بھی کہا جاتا ہے۔
ناہید کی اسی خوبصورتی کی رعایت سے چودھویں کے چاند کو ’ناہیدِ آسمان‘ کہتے ہیں، جب کہ حسین و جمیل شخص کو ’ناہید زیب‘ یعنی سیارہ ناہید سے زیادہ خوبصورت کہا جاتا ہے۔ 

روشن کرنا اور شہرت و ترقی دینا بھی ’چراغ جلانا‘ کہلاتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

چوں کہ ناہید خوش آواز بھی ہے اسی لیے کسی بھی ایسے شخص کو جس کی آواز میں دلکشی ہو ’ناہید گُلو‘ اور ’ناہِید نَغمَہ‘ یعنی ناہید جیسی آواز والا کہتے ہیں۔ 
مومن خان مومن نے ناہید کی اسی آواز کی رعایت سے محبوب کی آواز کو غیرت ناہید یعنی ناہید کے لیے بھی قابل رشک آواز قرار دیا ہے، جس کی ہرتان دیپک جلاتی چلی جاتی ہے، اور ایک جہاں روشن کر دیتی ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں