Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو پائیں گے؟

نومبر کے آخری ہفتے میں دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان دتہ خیل میں ملٹری پوسٹ پر حملہ کیا (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستانی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان ہونے والا ایک ماہ کی فائر بندی کا معاہدہ نو دسمبر کو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
فائر بندی کے باوجود شمالی وزیرستان میں فورسز پر حملوں کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
اس صورت حال میں فائر بندی کے معاہدے میں توسیع اور مذاکرات کی کامیابی کے امکانات محدود ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جانے لگا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد گذشتہ ماہ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جنگ بندی پر اتفاق رائے سے متعلق ٹویٹ کیا اور تحریک طالبان نے بھی اس کی توثیق کی تھی۔
اس ایک ماہ کے دوران ایک موقع پر وزرا کے بیانات پر تحریک طالبان کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
نومبر کے آخری ہفتے میں دہشت گردوں نے شمالی وزیر ستان کے علاقے دتہ خیل میں فوجی پوسٹ پر حملہ کیا۔
حملے کے دوران دہشت گردوں اور سکیورٹی فورسز میں شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں دو جوان ہلاک ہوئے جن میں ٹانک کے رہائشی 22 سالہ لانس نائیک عارف اور چترال کے رہائشی 27 سالہ لانس نائیک رحمان شامل تھے۔
حکومت اور طالبان کی جانب سے مذاکرات میں کسی بھی پیش رفت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جا رہا اور استفسار کے باوجود متعلقہ وزرا خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق ’طالبان اپنے 100 سے زائد ساتھیوں کی رہائی اور افغانستان منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

تاہم قومی سلامتی کے معاملات سے متعلقہ حکام کے مطابق مذاکرات میں حکومت اور طالبان دونوں جانب سے ایک دوسرے کے بارے میں عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت پاکستان یک نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کرنا چاہ رہی ہے کہ تمام مسلح طالبان ہتھیار پھینک کر معمول کی زندگی میں واپس آجائیں اور آئندہ کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔‘
'دوسری جانب طالبان اپنے 100 سے زائد ساتھیوں کی رہائی اور افغانستان منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور مذاکرات اس نکتے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
حکام کے مطابق ’حکومت کی جانب سے ہتھیار پھینکنے والے طالبان کی رجسٹریشن کرنے، ان کے رشتہ داروں اور قبائلی عمائدین کی جانب سے ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے بوقت ضرورت بلائے جانے پر حاضری یقینی بنانے جیسی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ طالبان کی اعلیٰ قیادت اپنے اہم ذمہ داران کے لیے ان شرائط پر رضامند نہیں ہو رہی۔
اس کے باوجود حکام کا کہنا ہے کہ ’مذاکرات کو جاری رکھنے پر دونوں فریق رضامند ہیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ فائر بندی معاہدے میں مزید توسیع ہو جائے۔
تاہم ترجمان تحریک طالبان پاکستان محمد خراسانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شرائط کے بارے میں مذاکراتی کمیٹیوں کی جانب سے کوئی ہدایات جاری نہیں ہوئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فوج پر حملوں کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔‘
’مذاکرات کے بارے اتنی ہی خبریں سچی ہیں جو ہم نے رسمی طور پر شائع کی ہیں۔‘
محمد خراسانی کا مزید کہنا تھا کہ ’مستقبل کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔‘

محمد خراسانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’فوج پر حملوں کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

دوسری جانب دفاعی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ان مذاکرات کی کامیابی کا پہلے بھی کوئی امکان نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔
فورسز پر حملوں کے بعد یہ بات طے ہو گئی ہے کہ تحریک طالبان کے کچھ دھڑے بات چیت کے خلاف ہیں اور شاید مذاکرات کرنے والے کچھ دھڑے بھی اس عمل سے باہر ہو جائیں گے۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کو نکالا جائے۔ اس پر افغان طالبان نے کہا کہ نکالنا ممکن نہیں تاہم حکومت پاکستان اگر مذاکرات پر آمادہ ہو تو وہ ثالثی کر سکتے ہیں۔‘
’اسی طرح خود کالعدم ٹی ٹی پی نے بھی مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان نے مصلحت کے تحت اس پیش کش کا مثبت جواب دیا۔ اس کی کچھ وجوہات تھیں جن میں پہلی یہ کہ اگر کالعدم تحریک طالبان کے 10 گروہ ہیں تو ان کو تقسیم کر کے کچھ سے لڑنا آسان ہے اور سب سے لڑنا مشکل ہوتا ہے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کے مطابق ’دوسرا افغان طالبان یہ نہ سمجھیں کہ ہم ان کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ تیسری یہ کہ افغان طالبان کے لیے بھی حجت پوری ہو جاتی ہے کہ ہم کالعدم ٹی ٹی پی کو مذاکرات میں لے کر گئے اور وہ مذاکرات میں نہیں مانے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت اچھی حکمت عملی تھی کہ بات چیت کی گئی اور بہت اچھا ہوگا اگر یہ ناکام ہو جائیں تو پھر پاکستان اپنی مرضی سے ان کے ساتھ سلوک کرے گا۔ بالآخر طالبان کو سرنڈر ہی کرنا ہے تاہم درمیان میں تشدد کی لہر آسکتی ہے جس سے بچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘

نعیم خالد لودھی کے مطابق ’پاکستان نے طالبان حکومت تسلیم کرنے کے لیے افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے افراد کو نکالنے کی شرط رکھی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

'اس کے نتیجے میں کچھ کے لیے عام معافی ہوگی لیکن باقیوں کے ساتھ لڑائی ہی کرنا پڑے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ افغان طالبان ان مذاکرات کی ناکامی پر کالعدم ٹی ٹی پی کے افراد کو افغانستان سے نکلنے کا بھی کہہ دیں۔
اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ ’مذاکرات تو کرنا ہی پڑتے ہیں، فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے افغانستان میں جگہ تنگ پڑ رہی ہے۔ مذاکرات میں تعطل ضرور ہے لیکن عدم اعتماد اور تعطل دور کرنے کے لیے سوچ بچار کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کے موجودہ گروہوں میں 80 سے 85 فیصد ہتھیار ڈالنے کو تیار ہو جائیں گے۔ 15 سے 20 فیصد جو زیادہ شدت پسند ہیں مسئلہ ان کا ہے کیونکہ ان شدت پسندوں کو خطرہ ہے کہ سرنڈر کرنے کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے فورسز کی نگرانی میں آجائیں گے۔‘
’جو لوگ سرنڈر نہیں کریں گے ان کا خاتمہ کرنا ہوگا اور جو سرنڈر کریں گے ان کی مستقل نگرانی کا بندوبست کرنا ہوگا۔‘
افغان امور اور کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملات کو سمجھنے والے سابق سفیر ایاز وزیر نے ایک جملے پر مبنی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار افغانستان کی صورت حال پر ہے۔‘

شیئر: