Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھپ کر ٹریننگ کرنے والے افغان باکسرز مغرب میں پناہ کے متلاشی

افغان باکسرز نے سربیا کے مقامی جِموں غیر یقینی صورتحال میں ٹریننگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے پی)
افغان قومی باکسنگ ٹیم کے کھلاڑی اپنے کیریئر اور اپنی زندگی دونوں کو بغیر کسی خطرے اور خوف کے جاری رکھنے کی امید میں مغرب میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس افغان باکسر ،ان کے کوچ اور باکسنگ فیڈریشن کے ایک اعلیٰ عہدے دار نومبر کے اوائل میں اے آئی بی اے ورلڈ باکسنگ چیمپئن شپ ختم ہونے کے بعد سربیا میں ہی رہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ وطن واپس آئے تو انہیں طالبان سے انتقام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
افغانستان کی باکسنگ فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل وحیداللہ حمیدی نے کہا کہ ’جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو سب کچھ بدل گیا۔ نئی حکومت کے دوران عالمی چیمپئن شپ کے لیے آنا مشکل تھا۔‘
ٹیم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزوں اور سیاسی پناہ کے لیے متعدد غیر ملکی سفارت خانوں سے رابطہ کیا ہے جبکہ یورپی یونین کے کچھ ممالک نے انہیں مسترد کر دیا لیکن اس 11 رکنی ٹیم نے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے کی امید نہیں چھوڑی ہے۔
اگست میں امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد دسیوں ہزار افغان(جن میں کھلاڑی بھی شامل ہیں) ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
وحید اللہ حمیدی نے کہا کہ طالبان باکسنگ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور باکسرز کو افغانستان میں آزادانہ طور پر اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔

طالبان کے سابق ​​دور حکومت میں افغانستان میں باکسنگ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ (فوٹو: اے پی)

’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ افغانستان کی صورتحال بہت زیاہ بہت خراب ہے۔انہوں (طالبان) نے ابتدائی دنوں میں باکسنگ جاری رکھنے اور جم کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ ہر کوئی باکسنگ یا کسی اور چیز کے لیے کہیں بھی جانے سے ڈرتا تھا۔‘
اے پی کے مطابق وحید اللہ حمیدی کے والد، جو افغان باکسنگ فیڈریشن کے سابق سیکرٹری جنرل تھے، کو 2019 میں نامعلوم حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے سابقہ ​​دور حکومت میں افغانستان میں باکسنگ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
وحید اللہ حمیدی نے اصرار کیا کہ عہدیداروں اور باکسروں کو خطرات کا سامنا ہے اور انہیں اپنی حفاظت کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ باکسنگ ان (طالبان) کے لیے ’حرام‘ ہے۔

ٹیم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزوں اور سیاسی پناہ کے لیے متعدد غیر ملکی سفارت خانوں سے رابطہ کیا۔ (فوٹو: اے پی)

وحید اللہ حمیدی نے کہا کہ سربیا کے سفر سے قبل باکسرز نے خفیہ مقامات پر ٹریننگ کی اور بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے اپنے منصوبے کو چھپایا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایران جانے کے لیے ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر تہران میں انھوں نے بلغراد جانے سے پہلے سربیا کے سفارت خانے میں ویزے کے لیے درخواست دی۔
اس گروپ کے سربیا کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ وحید اللہ حمیدی نے کہا کہ دوستوں اور رشتہ داروں نے انہیں خبردار کیا کہ وہ افغانستان واپس نہ جائیں۔
’ہمیں امید ہے کہ ہمیں جلد از جلد ویزہ مل جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ، ٹیم کوچ اور نو باکسر جو اب بھی سربیا میں ان کے ساتھ ہیں مغربی یورپ پہنچنے کے لیے غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور نہیں کرنا چاہتے لیکن انھوں نے سربیا میں پناہ کے لیے درخواست نہیں دی ہے۔

افغان باکسرز نے مقامی جِموں غیر یقینی صورتحال میں ٹریننگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے پی)

بلغراد سینٹر فار ہیومن رائٹس کے ساتھ کام کرنے والے اٹارنی مارکو سٹمبوک نے کہا کہ افغان باکسرز نے تنظیم سے رابطہ کیا اور انہیں سربیا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنے آپشنز کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ان افغان باکسرز نے سربیا کے مقامی جِموں غیر یقینی صورتحال میں ٹریننگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
ٹیم کے ایک 20 سالہ رکن حسیب اللہ ملک زادہ نے کہا کہ وہ افغانستان واپس جانے سے ڈرتے ہیں اور کہیں اور باکسنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
’میں اچھا چیمپئن اور دنیا بھر کے بچوں کے لیے ایک رول ماڈل بننا چاہتا ہوں۔‘

شیئر: