فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 44 سالہ گل کاکڑ کہتے ہیں کہ ’میں ان کی زبان سمجھتا ہوں، یہ مجھے اپنے مسائل بتاتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں۔‘
کاکڑ کی کلیکشن میں شہر کے پولیس ہیڈکوارٹر میں 1850 میں نصب کی گئی گھڑی بھی شامل ہے۔
گل کاکڑ کے بقول ان کے اس میوزیم کو سراہنے اور یہاں آنے والے افراد بہت کم ہیں۔ ’کوئٹہ کے لوگ زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے۔‘
قدیم و نایاب گھڑیاں جمع کرنے کا شوق انہیں کئی دہائیاں پہلے ہوا جب ان کے گھر کی دو گھڑیاں خراب ہو گئیں اور انہیں ٹھیک کرنے کے لیے دکان میں بھیجا گیا۔
’میں نے دلچسپی لینا شروع کی اور پھر مجھے یہ خیال آیا کہ مجھے مزید گھڑیاں لینی چاہییں۔‘
اس کے بعد انہوں نے گھڑیاں جمع کرنا شروع کر دیں اور 18 سال کے عرصے میں انہوں نے یہ میوزیم بنایا۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم دوستوں کو وہاں کی تیارکردہ استعمال شدہ گھڑیاں خرید کر انہیں بھجوانے پر آمادہ کیا۔
کاکڑ کے پاس ان گھڑیوں کا کوئی شمار نہیں اور نہ ہی وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی اس کلیکشن پر کتنے پیسے خرچ کر چکے ہیں تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ گھڑیوں کی خریداری میں نکل جاتا ہے۔
گل کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’میں جب تک زندہ ہوں ان کی دیکھ بھال کروں گا۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے خاندان میں کسی کو گھڑیاں جمع کرنے کا شوق نہیں ہے اور ان کے انتقال کے بعد یہ بیچ دی جائیں گی۔
اگر حکام یا نجی سیکٹر ان کے نام پر میوزیم بنانے کے لیے رضامندی ظاہر کرے گا تو وہ یہ کلیکشن عطیہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تک مجھے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی گئی۔‘