Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغانستان میں القاعدہ شدت پسندوں کی تعداد میں معمولی اضافہ ہوا‘

طالبان نے قطر میں امریکہ کے ساتھ معاہدے میں القاعدہ سے تعلق ختم کرنے وعدہ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے کہا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہاں شدت پسند القاعدہ کے جنگجوؤں کی تعداد میں معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جنرل میکنزی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ طالبان کی لیڈر شپ کے اندر القاعدہ سے تعلق توڑنے کے حوالے سے تقسیم پائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ طالبان نے قطر میں امریکہ کے ساتھ معاہدے میں القاعدہ سے تعلق ختم کرنے وعدہ کیا تھا۔
امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان سے غیرملکی افواج اور انٹیلی جنس اثاثے نکل جانے کے بعد وہاں شدت پسندوں کے نقل و حرکت پر نظر رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں ان کے پاس افغانستان کے اندر ایسے ایک سے دو فیصد وہ وسائل باقی ہیں جن سے القاعدہ اور داعش کو امریکہ سے لاحق خطرے پر نظر رکھی جا سکے۔
پینٹاگون میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل میکنزی نے کہا کہ القاعدہ افغانستان میں دوبارہ خود کو منظم کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان وہ ملک ہے جہاں امریکہ پر نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس وقت وہاں کی سرحدوں پر نگرانی کا کوئی نظام نہیں جس سے عسکری پسند فائدہ اٹھا رہے ہیں اور امریکہ کے لیے ان عناصر کی تعداد جاننا ممکن نہیں رہا۔

طالبان نے اگست میں کابل پر کنٹرول کے بعد اپنی فورس بھی تشکیل دی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے قبل جنرل میکنزی، امریکی فوج کے دیگر سینیئر حکام اور قومی سکیورٹی سے منسلک اہلکار کہتے رہے تھے کہ اس سے وہاں صورتحال پیچیدہ ہو جائے گی اور القاعدہ کے خطرے کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
امریکی حکومت کہتی رہی ہے کہ افغانستان میں شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی زیادہ تر فضائی ذرائع سے کی جاتی ہے جو افغان سرزمین سے دور رہ کر بھی ممکن ہے تاہم جنرل میکنزی کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اس کی وجہ وہاں زمین پر امریکی انٹیلی جنس کا موجود نہ ہونا ہے۔

شیئر: