Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات: سیاست میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آئی ہے؟

خانیوال کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل ہوئی جس پر کارکنان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے (فوٹو: ٹوئٹر)
جب سے پاکستان میں ’بیانیے کی سیاست‘ مقبول ہوئی ہے تقریباً ہر سیاسی جماعت کسی بھی سیاسی سرگرمی کو اپنے بیانیے کی جیت گردانتی ہے۔ یہی وجہ ہے ہر بار یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس جماعت کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔
حال ہی میں خانیوال کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس جیت پر پارٹی کے کارکنان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔
ادھر سکردو میں وزیراعظم عمران خان کے جلسے کے بعد حکمران جماعت پی ٹی آئی کے کارکنان کا یہ دعویٰ ہے کہ منفی تین سینٹی گریڈ پر بھی کپتان نے بھرپور جلسہ کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ کپتان کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی۔
اسی طرح پیپلز پارٹی بھی لاہور کے حلقے کے ضمنی انتخاب میں 32 ہزار ووٹ لینے کو ’بڑا کارنامہ‘ بتا رہی ہے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آئی ہے لیکن کیا یہ تاثر واقعی درست ہے؟
سیاسی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستانی سیاست کے خدوخال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
خانیوال کے ضمنی الیکشن کی بات کی جائے تو یہ نشست پہلے بھی مسلم لیگ ن کی تھی۔

سیاسی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ مجموعی طور پر پاکستانی سیاست کے خدوخال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے (فائل فوٹو: اردو نیوز)

مسلم لیگ ن کے ایم پی اے نشاط ڈاہا تحریک انصاف میں چلے گئے اور ہراج خاندان پی ٹی آئی سے ن لیگ میں چلا گیا اور نتیجہ وہی رہا جو 2018 کے عام انتخابات میں تھا یعنی یہ نشست مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہی۔ 
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر 2018 کے عام انتخابات کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات کا ریکارڈ موجود ہے۔ ان ضمنی انتخابات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی فرق کے ساتھ ہر پارٹی نے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی چار نشستوں کے علاوہ اپنی ہی سیٹ جیتی ہے۔
ان چار سیٹوں میں لاہور کی نشست جو وزیراعظم عمران خان نے جیتنے کے بعد چھوڑی تھی اور اس وقت ہارنے والے خواجہ سعد رفیق نے وہ ضمنی انتخاب میں جیت لی۔
نوشہرہ کی نشست جو حکمران جماعت نے عام انتخابات میں جیتی ہوئی تھی ضمنی الیکشن میں ہاری۔
تاہم سیاسی مبصرین کے مطابق ایسا صرف اس لیے ہوا کہ پاکستان کے ضمنی انتخابات ہمیشہ سے ہی حلقے کی مقامی سیاست کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ جماعت کا مجموعی بیانیہ صرف پانچ سے دس فیصد تک ہی اثر انداز ہوتا ہے۔  
سنہ 2018 کے بعد ہونے والے اب تک کے ضمنی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو اب تک قومی اسمبلی کی 18 سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں جن میں سے مسلم لیگ ن نے چھ پی ٹی آئی نے پانچ پیپلزپارٹی نے چار، مسلم لیگ ق نے دو اور ایم ایم اے نے ایک سیٹ جیتی ہے۔
تمام صوبائی اسمبلیوں میں حکمران جماعت پہلے نمبر پر ہے کیونکہ زیادہ تر ضمنی انتخابات خیبرپختونخوا میں ہوئے ہیں لیکن اسمبلیوں میں تھوڑے رد و بدل کے ساتھ سب کی پوزیشن وہی ہے جو 2018 کے عام انتخابات کے بعد سامنے آئی تھی۔

قومی اسمبلی کی 18 سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں جن میں سے مسلم لیگ ن نے چھ جبکہ پی ٹی آئی نے پانچ نشستیں جیتی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’یہاں مہنگائی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ووٹ کو عزت دینے کا‘
سیاسیات کے ماہر رسول بخش رئیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کی سیاست بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح کا پاکستان جمہوری نظام ہے۔ جس معیار کا جمہوری نظام ہے اتنے ہی معیار کی سیاست ہے۔ اس لیے جن عناصر نے نظام کو جکڑا ہوا ہے صورت حال ایک جیسی ہی رہے گی۔‘
رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات ہوں یا عام انتخابات عوامی رائے سے زیادہ مقامی طاقتور لوگوں یا الیکٹ ایبلز کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ’ان الیکٹ ایبلز کو اپنے مخالفین پر برتری کے لیے جس پانچ یا دس فیصد کی ضرورت ہوتی ہے وہ پارٹی فراہم کردیتی ہے جس کی طرف ان کا جھکاؤ ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اتنی مہنگائی اور بیڈ گورننس میں ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران جماعت کو ووٹ ہی نہ پڑیں لیکن آپ دیکھیے کہ وہ کم ہی مارجن سے ہارے ہیں۔ تو گویا نہ یہاں مہنگائی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی ووٹ کو عزت دینے کا۔‘ 

شیئر: