Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیارت میں دو افراد کو انگاروں پر چلانے کے واقعے کی تحقیقات

ٹریکٹر کی چوری کے شبے میں دو افراد کو انگاروں پر ننگے پاؤں گزارا گیا۔ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع زیارت میں چوری کے الزام میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دو نوجوانوں کو انگاروں پر ننگے پاؤں گزارا گیا۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر سنجاوی حسن انور نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ آگ پر چلنے کی رسم کا واقعہ پانچ روز قبل زیارت سے تقریباً 60 کلومیٹر دور سنجاوی کے نواحی علاقے سرہ خیزی میں پیش آیا اور ٹریکٹر کی چوری کے شبے میں دو افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے بجائے فریقین نے باہمی رضا مندی سے اس رسم کے ذریعے فیصلہ کیا۔ 
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں افراد کی موجودگی میں دو افراد ایک ایک کر کے کئی فٹ لمبے گڑھے میں موجود دہکتے کوئلوں پر ننگے پاؤں گزر کر دوسرے کنارے تک پہنچ گئے ہیں۔ پاؤں پر جلنے کے نشانات اور چھالے نہ ہونے کی صورت میں دونوں افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ سے گزرنے کے بعد لوگوں نے دونوں نوجوانوں کو ہار پہنائے گئے اور انہیں بے گناہ ثابت ہونے پر مبارکباد دی۔
سنجاوی کی مقامی پشتو زبان میں اس رسم کو ’چُر‘ کہا جاتا ہے۔ چوری، کاروکاری اور قتل کے فیصلے کے لیے یہ رسم زیادہ تر بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی، کوہلو، جعفرآباد، نصیرآباد اور ہرنائی میں ہوتی ہے جہاں اسے ’آس آپ‘ یا ’چربیلی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس رسم کے لیے 10 سے 12 فٹ لمبا، اڑھائی فٹ چوڑا اور تقریباً دو فٹ گہرا گڑھا کھودا جاتا ہے جس میں آگ جلانے کے بعد تازہ انگاروں کی آگ کو قرآن کی قسم دی جاتی ہے کہ جو مجرم ہو اسے پکڑنا اور جو بے گناہ ہوں اس کے پاؤں نہ جلانا ۔
انگاروں پر چلنے والا شخص پاؤں میں چھالے پڑنے کی صورت میں مجرم قرار دیا جاتا ہے اور اگر پاؤں پر جلنے کے نشان یا چھالے نہ پڑیں تو اسے بے گناہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

آگ پر چلنے کا واقعہ زیارت سے دور سرہ خیزی کے علاقے میں پیش آیا۔ فائل فوٹو اے ایف پی

سنجاوی میں آگ سے گزر کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے والے گل زمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک مقامی قبائلی ملک کے ٹیوب ویل پر ٹریکٹر ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دو ہفتے قبل ٹریکٹر، بیٹریاں اور جنریٹر چوری ہوا۔ اگلے دن گھر سے آکر جب ٹریکٹر اورسامان غائب پایا تو مالکان کو اطلاع دی۔ 
گل زمان کے مطابق 'مالکان نے اس چوری کا الزام مجھ پر اور دوسرے ڈرائیور محمد رضا پر عائد کیا اور مجھے قید کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ خود کو بے گنا ثابت کرنے کے لیے تمہیں دہکتے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلنا ہوگا۔‘
بے گناہ ثابت ہونے پر دونوں افراد سے معافی مانگی جائے گی
اس رسم کا اہتمام کراچی کے بقائی کیڈٹ کالج کے گریجویٹ سیف الدین نے کیا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’ایک فریق چوری اور دوسرا فریق حبس بے جا میں رکھنے اور اغوا کا مقدمہ درج کرانا چاہتا تھا۔ دونوں مقامی لیویز تھانے پہنچے تھے لیکن لیویز افسران مقدمہ درج نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے مجھے ثالث مقرر کیا اور کہا کہ ان کا معاملہ قبائلی طریقے سے حل کراؤ۔‘
سیف الدین نے بتایا کہ انہوں نے اس رسم کے انعقاد سے قبل نہ صرف لیویز بلکہ ضلعی انتظامیہ  کے افسران کو بھی اطلاع دی تھی لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
’چوری کا الزام غلط ثابت ہونے پر اب مالکان میڑھ لے کر دونوں افراد کے گھر جائیں گے اور ان سے معافی مانگنے کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کریں گے۔‘
لیویز تھانے کے تفتیشی افسر عبدالخالق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور کہا کہ چوری یا اغوا سے متعلق مقدمہ درج کرانے تھانے کوئی آیا اور نہ لیویز نے کسی کو جرگے یا اس رسم کے ذریعے اپنے تنازعے کا فیصلہ کرنے کا کہا ہے۔

پاؤں پر چھالے پڑنے کی صورت میں مشتبہ شخص مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

اسسٹنٹ کمشنر سنجاوی حسن انور کے مطابق ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو اس جرگے سے متعلق کوئی پیشگی معلومات نہیں تھیں۔
ابھی تک جرگے کے منتظمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ تھانے کے تفتیشی افسر کے ملوث ہونے سے متعلق ڈپٹی کمشنر نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
سیف الدین کے مطابق سردیوں میں سنجاوی اور زیارت کے زیادہ تر لوگ باقی شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں تو یہاں چوری کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔
’لیویز اور پولیس چوری کی روک تھام اور مقدمات درج کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی ایسے میں قبائلی دشمنیوں کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ہم قبائلی جرگوں اور ایسی رسومات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
’یہ رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے‘
اس رسم کی مذہبی، قانونی یا سائنسی توجیہہ سے متعلق سیف الدین نے بتایا کہ اس رسم کی کوئی قانونی یا سائنسی بنیاد تو نہیں مگر یہ صدیوں سے چلی آرہی ہے، لوگ عدالتوں اور تھانوں کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے اس لیے آج بھی اس رسم کے تحت فیصلے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنجاوی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایک مولوی ایسی رسومات ادا کرتا ہے اور دو روز قبل سنجاوی ہی کے علاقے وچہ ونڑئی میں پندرہ بھیڑ بکریاں اور تین لاکھ روپے مالیت کے دو انورٹر کی چوری کے واقعہ کے بعد اسی مولوی کو بلایا گیا جس نے چار مشتبہ قرار دیے گئے افراد کے ہتھیلیوں پر آٹے کی تھوڑی سی مقدار رکھی اور اس پر کچھ پڑھا اور اس کے بعد ان افراد کو اس آٹے کو اپنے تھوک سے گیلا کرنے کا کہا گیا، لیکن حلق خشک ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرنے میں ناکام ہوئے اورچور قرار دے دیے گئے۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی

’یہ غیر انسانی رسم ہے‘
کمیشن برائے انسانی حقوق کے بلوچستان میں سربراہ حبیب طاہر ایڈوکیٹ کے مطابق بہت عرصہ بعد اس طرز کا کوئی کیس سامنے آیا ہے، پہلے کی نسبت کمی آئی ہے مگر ایسی رسومات آج بھی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے لوگوں کو عدالتوں سے فوری انصاف نہیں ملتا، پولیس، لیویز اور عدالتوں کا نظام اتنا مہنگا اور سست ہے کہ لوگ جرگوں میں جاکر اپنے فیصلے کراتے ہیں جبکہ قانونی طور پر ان جرگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
’چوری، قتل یا کاروکاری کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کو دہکتے انگاروں سے گزارنے پر مجبور کرنا غیر انسانی رسم ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ سائنسی طور اسے درست ثابت کیا جا سکتا ہے۔‘ 
حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق اس کیس میں شرمناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری اہلکاروں کی منشا سے ہوا، اس لیے حکومت کو پہلے ان سرکاری اہلکاروں اور اس کے بعد اس رسم کو ادا کرنے والے افرا د کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ 

شیئر: