Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اب میں ہر روز روتی ہوں‘، ترکی میں افغان خواتین سیاستدان مشکلات کا شکار

سابق خاتون وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اگست میں ملک اس طرح اچانک بکھر جائے گا۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
ترکی میں پناہ لینے والی سابق افغان حکومت کی درجنوں خواتین اہلکاروں نے ترک حکومت کے ان کے ساتھ سلوک پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اپنے بینک اکاؤنٹس سے محروم، جنہیں طالبان نے منجمد کر دیا ہے، درجنوں خواتین نے کہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے خوراک، طبی امداد اور تعلیم تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
ایک سابق سینیئر وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہمارے پاس کوئی سمت نہیں ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اگست میں ملک اس طرح اچانک بکھر جائے گا۔ ابھی ہمارے پاس کوئی مواقع نہیں ہیں۔‘
56 سالہ خاتون سیاست دان گذشتہ چار ماہ سے ترکی میں ہیں لیکن انہیں کسی بھی طرح کی مالی امداد نہیں ملی۔ وہ اپنے خاندان کو چھوڑ کر جس میں ان کی ایک معذور بیٹی بھی شامل ہے، ’گھر میں بیٹھی ہیں۔‘
وزرا اور نائب وزرا سمیت 35 افغان خواتین سیاست دانوں کی جانب سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ترکی کی حکومت کی کوئی مدد حاصل نہیں ہے۔ مہاجرین کے لیے کوئی امداد نہیں ہے۔‘
’کوئی طبی امداد نہیں، کوئی تعلیم نہیں اور کوئی مالی امداد نہیں۔ میری تین بیٹیاں ہیں لیکن وہ سکول نہیں جا سکتیں کیونکہ تعلیم کا خرچ بہت زیادہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعی، واقعی چیلنجنگ ہے۔ میں تین چار سال تک نہیں روئی، اب میں ہر روز روتی ہوں، کیونکہ ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘
سابق وزیر نے کہا کہ ترکی میں رہنے کے ان کے حق کے بارے میں صورت حال واضح نہ ہونے سے ان کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اور ان کی سابق کولیگز کو صرف چھ ماہ کا عارضی ویزہ جاری کیا گیا تھا اور انہیں یقین نہیں ہے کہ ان کی تجدید ہو سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’انہیں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب نے انہیں چھوڑ دیا ہے کیونکہ سیاسی پناہ کی متعدد درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔‘

شیئر: