Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نواز شریف کو برطانیہ سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟

ایڈووکیٹ عقیل کیانی کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے پاس سیاسی پناہ کا آپشن موجود ہے(فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک بار پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور حکوتی رہنماؤں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ویزہ میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انھیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔ 
تاہم برطانیہ میں مقیم امیگریشن ماہرین کے مطابق نواز شریف کی برطانیہ سے امیگریشن بنیادوں پر بے دخلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ برطانیہ کی جانب سے نواز شریف کو ڈی پورٹ نہیں کیا جا رہا ہے ان کے پاس ویزہ میں توسیع کی نئی درخواست دینے کے علاوہ اپیل کا حق بھی موجود ہے۔
نواز شریف کی وطن واپسی کا چرچا اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے لندن سے اپنے ایک ویڈیو لنک خطاب میں الواداعی کلمات کہتے ہوئے کہا کہ ’امید ہے کہ آپ سے جلد پاکستان میں بھی ملاقات ہوگی۔‘
نواز شریف کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر لیگی حلقوں میں گرمجوشی تو حکومتی حلقوں میں ہلچل دکھائی دینے لگی۔
وزیر اعظم عمران خان سے منسوب بیان بھی مقامی میڈیا پر نشر ہوا کہ ’نواز شریف کی سزا اور نااہلی ختم کرنے کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ ’ جو لوگ وطن واپسی [کے لیے ڈیلوں  کا انتظار کریں وہ سیاست میں ہمیشہ بونے ہی رہیں گے۔‘
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل بھی مسلسل اپنی ٹویٹس کے ذریعے نواز شریف کے وطن واپسی کے بیان پر طنز کے نشتر برسا رہے ہیں۔
حکومتی حلقے یہ تاثر دے رہے کہ جنوری میں نواز شریف کی برطانیہ میں قیام کے لیے ویزہ میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اپیل بھی بھی خارج ہو گئی ہے اس لیے وہ اپنی بے دخلی کو پاکستان آنے کا پلان بتا رہے ہیں۔
شہباز گل نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ ’برطانیہ میں نواز شریف کے ویزہ کی توسیع کی درخواست مسترد ہو چکی ہے، اس وقت اپیل میں ہیں لیکن انہیں پتہ ہے ویزہ مسترد کر کے بے دخل کیا جائے گا اس لیے نواز شریف کے بے دخل ہونے کو ان کا واپس آنے کا سیاسی فیصلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔‘

نواز شریف نے ویڈیو لنک خطاب میں کہا تھا کہ ’امید ہے کہ آپ سے جلد پاکستان میں بھی ملاقات ہوگی۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم برطانیہ میں مقیم امیگریشن ماہرین کے مطابق نواز شریف کو امیگریشن بنیادوں پر برطانیہ سے ڈی پورٹ ہونے کا کوئی خدشہ لاحق نہیں ہے۔ اپیل مسترد ہونے کے باوجود ان کے پاس برطانیہ میں قیام کے متعدد آپشنز موجود ہیں۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی وکیل عقیل حسین کیانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نواز شریف کی اپیل اس وقت امیگریشن ٹریبونل کے اپر ٹریبونل میں ہے جہاں درخواست یہ ہوتی ہے کہ لوئر ٹریبونل میں قانون کا درست اطلاق نہیں کیا گیا۔ اگر اپر ٹریبونل سے بھی درخواست مسترد ہو جائے تو قانون کے مطابق یا تو 14 روز میں ملک چھوڑنا ہوتا ہے یا پھر نئی درخواست دینا پڑتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر ان کی درخواست مسترد ہو جائے اور اس کے باوجود وہ برطانیہ میں رہنا چاہیں تو نئی درخواست دے سکتے ہیں۔‘
عقیل حسین کیانی کے بقول نواز شریف ہائی پروفائل سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ نئی درخواست دے سکتے ہیں ان کے پاس سیاسی پناہ کا آپشن ہے لیکن وہ ڈی پورٹ نہیں ہو سکتے۔
’اگر اپر ٹریبونل سے درخواست مسترد ہونے کے بعد زیادہ وقت لینا چاہیں تو نئی درخواست دیں گے ورنہ ان کے پاس کورٹ آف اپیل کا آپشن بھی موجود ہے۔ وہ نئی درخواست دیں تو سال ڈیڑھ سال آسانی سے گزار سکتے ہیں۔‘
ایڈووکیٹ عقیل کیانی کے مطابق ’نواز شریف اگر واپس جانا چاہتے ہیں تو ان کا سیاسی فیصلہ اور سیاسی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن  کوئی انھیں مجبور کرکے برطانیہ سے بے دخل نہیں کر سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس قانونی آپشنز ہیں۔‘

وزیراعظم عمران خان سے منسوب بیان بھی مقامی میڈیا پر نشر ہوا کہ ’نواز شریف کی سزا ختم کرنے کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نواز شریف کے بچے بھی برطانیہ میں مقیم ہیں اور نئے قانون کے مطابق 60 سال سے زائد عمر کے والدین زیر کفالت افراد کی کیٹگری میں آتے ہیں اس لیے وہ بھی درخواست دے کر نواز شریف کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت لے سکتے ہیں۔‘
برطانوی امیگریشن ماہر سہیل بابر ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’نواز شریف کی اپیل مسترد ہونے کے باوجود انھیں ڈی پورٹ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا پاسپورٹ زائد المیعاد ہے۔ برطانوی امیگریشن قانون کے مطابق کسی فرد کو اس وقت تک ڈی پورٹ نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کے پاس سفری دستاویز یعنی پاسپورٹ ہو۔‘
سہیل بابر کے بقول نواز شریف نئی درخواست یا کورٹ آف اپیل میں جانے کا حق رکھتے ہیں تاہم سیاسی پناہ کی درخواست میں ان کے لیے مسائل ہیں اس لیے وہ یہ آپشن استعمال نہیں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف برطانیہ میں توسیع کے لیے کورٹ آف اپیل یا نئی درخواست دے کر اپنا قیام طویل تو کر سکتے ہیں لیکن سیاسی پناہ کے لیے انھیں انٹرویو وغیرہ کے پروسیس سے گزرنا پڑے گا جو تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے کے لیے ہتک آمیز ہوگا۔‘

شیئر: