Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد میں ہونے والی خونی ڈکیتیوں کے پیچھے کون؟

اسلام آباد پولیس کے مکمل ڈھانچے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کی اعلیٰ کمان تبدیل ہونے کے باوجود ڈکیتی کرنے والے گینگز کی سرکوبی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر ڈکیتیوں اور دیگر وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے۔  
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد پولیس نے سینکڑوں کے حساب سے مقدمات کا اندراج کیا ہے جن میں ڈکیتی کی متعدد وارداتیں بھی شامل ہیں۔  
نئی پولیس انتظامیہ کی جانب سے کمان سنبھالنے کے بعد ایف الیون، آئی نائن اور کورال کے علاقوں میں ڈکیتی کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ ان میں سے دو واقعات میں پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔  
پولیس اہلکاروں کی جانب سے ڈکیتی کی ایک واردات کو ناکام بھی بنایا گیا اور مبینہ پولیس مقابلے میں دو ڈاکو مارے گئے جو مبینہ طور پر اسلام آباد میں مسلم لیگی سینیٹر نزہت صادق کے گھر ڈکیتی میں ملوث تھے۔  
تازہ ترین وارداتوں میں سے ایک میں گزشتہ اتوار کو تھانہ انڈسٹریل ایریا کے سیکٹر آئی نائن کی ایک بیکری میں ڈکیتی کے دوران تین نقاب پوش ڈاکوؤں نے وہاں موجود گاہکوں کو یرغمال بنا لیا اور کاؤنٹر پھلانگ کر دراز سے نقدی نکال لی۔ ڈکیت بیکری میں موجود افراد کے موبائل فون بھی لوٹ کر لے گئے۔   
اس سے ایک روز قبل تھانہ کھنہ کے علاقے سوہان میں مسلح ملزمان نے ماں بیٹی اور کم سن بیٹے سے 14 تولے سونا اور نقدی اس وقت لوٹ لی جب وہ رابی سینٹر سے ٹیکسی بک کروا کر سوہان اپنےگھر کے قریب پہنچے تھے۔ 
اسلام آباد پولیس تاحال تمام ڈکیتیوں کا سراغ لگانے میں کامیاب تو نہیں ہوئی تاہم چند گرفتاریوں کے بعد ان گینگز کے طریقہ واردات کے بارے میں کچھ آگاہی ضرور حاصل ہوئی ہے۔  
 لیکن اس کے باوجود اعلٰی پولیس افسران تاحال غیر یقینی کا شکار ہیں اور ان گینگز کے بارے میں بات کرنے سے مسلسل کتراتے ہیں۔  
افغانستان کا غنی گینگ 
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس افسر نے اردو نیوز کو ان گینگز کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد میں ڈکیتی کی بڑی وارداتوں میں دو بڑے گینگز ملوث ہیں جن میں ایک غنی گینگ ہے جس کا تعلق افغانستان سے ہے اور اس میں شامل تمام ڈکیت بھی افغان شہری ہیں۔ یہ گینگ تاوان کے لیے کالیں بھی کرتے ہیں۔  

اسلام آباد میں ڈکیتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ نومبر میں عروج کو پہنچا۔ فوٹو اے ایف پی

پولیس حکام کے مطابق غنی گینگ ہمہ وقت سرگرم نہیں رہتا بلکہ کوئی بھی ایک بڑی واردات کرنے کے بعد غائب ہو جاتا ہے اور زیادہ تر امکانات بھی یہی ہیں کہ وہ افغانستان چلے جاتے ہیں اور ایک دو ماہ گزارنے کے بعد واپس آکر پوش سیکٹرز میں ریکی کرنے کے بعد پھر کوئی بڑی واردات کرتے ہیں۔  
پولیس کو چیلنج دے کر ڈکیتی کرنے والا بلال ثابت گینگ 
پولیس افسر کے مطابق دوسرا بڑا گینگ بلال ثابت ہے۔ پولیس کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بلال ثابت گینگ ہی ہے کیونکہ اس نے نہ صرف پولیس کی ناک میں دم کر رکھا ہے بلکہ یہ بعض اوقات پولیس کو چیلنج کرکے ڈکیتی کرتے ہیں۔ یہ گینگ شبلی فراز، ڈاکٹر قدیر خان کی بیٹی کے گھر اور آئی جی کے گھر کے سامنے ڈکیتی کی کروڑوں روپے کی وارداتوں میں ملوث ہے۔  
یہ گینگ اسلام آباد سے گاڑیاں بھی چوری کرتا ہے جنہیں پھر ٹیمپر کر کے مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان کی گاڑی بھی چرا لی تھی اور جب وہ گاڑی پولیس کو ملی تو اس پر جو فنگر پرنٹس تھے وہ ارشد نامی ڈکیت کے تھے جسے 18 دسمبر کو بحریہ ٹاؤن ڈکیتی کے دوران اس کے ساتھی ذاکر کے ہمراہ مار دیا گیا تھا۔  
اس پولیس مقابلے میں ڈاکوؤں نے جو بندوق استعمال کی وہ سینیٹر نزہت صادق کے گھر سے چوری کی گئی تھی جو پولیس نے گولیوں سمیت برآمد کی۔  
ڈکیتوں کی پولیس افسران کو قتل کی براہ راست دھمکیاں 
پولیس افسر کے مطابق بلال ثابت گینگ اعلیٰ پولیس افسران کو خود فون کرکے قتل کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔  
ان بڑے گینگز کے علاوہ اسلام آباد میں ڈکیتی کی درمیانے اور چھوٹے درجے کی وارداتوں میں پنڈی کے گینگز جن میں ڈھوک کھبہ اور چوہڑ کے علاقوں کے گینگز پولیس کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اسلام آباد میں واردات کرنے کے بعد راولپنڈی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔   
یہ وارداتیں متعلقہ پولیس افسران کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دیگر علاقوں میں بظاہر کامیاب رہنے والے افسران اسلام آباد پہنچ کر اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ 

پولیس حکام کے مطابق غنی گینگ ہمہ وقت سرگرم نہیں رہتا۔ فوٹو پکسابے

نومبر 2021: ڈکیتیوں کا مہینہ 
اسلام آباد میں ڈکیتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ نومبر میں عروج کو پہنچا جب ایک ہی مہینے میں ڈکیتی کی دس بڑی وارداتیں ہوئیں۔ جن میں کیش وین سے تین کروڑ روپے کی ڈکیتی، سینیٹر نزہت صادق کے گھر سے 10ہزار ڈالر، 14لاکھ پاکستانی روپے، 18تولے سونا اور ہیروں کی ڈکیتی شامل ہے۔  
سینیٹر دلاور کے کزن کے گھر سے 50 تولے سونے کی ڈکیتی، تھانہ سہالہ کی حدود میں بلیو ہلز کے دفتر سے تین کروڑ دس لاکھ روپے کی چوری، اور سابق آئی جی اسلام آباد کے گھر کے قریب 35 لاکھ روپے کے طلائی زیورات اور لاکھوں روپے نقدی کی ڈکیتی شامل ہے۔   
ڈکیتوں نے پوری پولیس انتظامیہ بدلوا ڈالی 
ان پے در پے وارداتوں کے بعد اعلٰی حکام نے اسلام آباد پولیس کی کمان تبدیل کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد جمیل الرحمان کی جگہ احسن یونس کو نیا آئی جی تعینات کر دیا۔  
ان کی تعیناتی کے بعد متعدد افسران نے ان کے ماتحت کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے تبادلے کی درخواستیں دے دیں۔  
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر تبادلے ہوئے اور اسلام آباد پولیس کے مکمل ڈھانچے میں ہی تبدیلیاں کر دی گئیں۔  

اسلام آباد پولیس نے ڈکیتوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے۔ فوٹو فیس بک آئی سی ٹی پولیس

پولیس انتظامیہ تبدیل ہونے اور آئی جی اسلام آباد کی جانب سے پولیس کا تشخص بہتر بنانے کے لیے افسروں کا جوانوں کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں اور عوام کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہریوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن وارداتوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔  
ڈاکوؤں کو پکڑنے کی نئی حکمت عملی  
اس حوالے سے ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ نئے آئی جی نے ڈکیتوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر بحریہ ٹاؤن میں چھپے ڈکیتوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔
اس وقت ان وارداتوں اور اسلام آباد میں امن و امان کے حوالے سے اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے اور نئے تعینات ہونے والے افسران صورتحال کا جائزہ لے کر نئی حکمت عملی پر کام شروع کریں گے تو ہی حالات میں بہتری نظر آئے گی۔  

شیئر: