پاکستانی وزرا کی غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں، کیا اجازت ضروری ہے؟
پاکستانی وزرا کی غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں، کیا اجازت ضروری ہے؟
جمعرات 6 جنوری 2022 9:59
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے ارکان کی غیرملکی سفرا سے ملاقاتوں کو وزارت خارجہ کو پیشگی اطلاع سے مشروط کر دیا ہے (فوٹو: اے پی پی)
وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے ارکان کی غیرملکی سفرا سے ملاقاتوں کو وزارت خارجہ کو پیشگی اطلاع سے مشروط کر دیا ہے۔
منگل کو ہونے والے وفاقی کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ کابینہ ارکان پاکستان میں تعینات سفرا کی ملاقات وزارت خارجہ کی جانب سے کلیریئنس کے بعد کریں گے۔
کابینہ کے ایک اہم رکن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سال 2021 میں وزارت خارجہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کی اور سفارتی سطح پر کامیابیوں پر بریفنگ دی۔
اس بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کے حکام کی جانب سے یہ نکتہ سامنے آیا کہ ’غیر ملکی سفرا مختلف وزرا سے ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن دفتر خارجہ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔‘
کابینہ رکن نے بتایا کہ ’اس معاملے کو پھر وزیر خارجہ نے بھی اٹھایا اور کہا کہ یہ سفارتی پروٹوکولز کی بھی خلاف ورزی ہے کہ سفرا مختلف وزارتوں میں ملاقاتیں کریں اور دفتر خارجہ کے علم میں بھی نہ ہو۔‘
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دفتر خارجہ کے پاس ایک ریکارڈ موجود ہونا چاہیے کہ کس ملک کا سفیر کس وزیر سے سرکاری طور پر ملاقات کر رہا ہے اور پروٹوکولز کے مطابق اس ملاقات کا ایجنڈا بھی دفتر خارجہ کے ساتھ شئیر کیا جائے۔
وزیراعظم عمران خان نے دفتر خارجہ کے تحفظات کی توثیق کرتے ہوئے ہدایت دی کہ آئندہ کسی بھی غیر ملکی سفیر سے ملاقات دفتر خارجہ کے علم میں لائے بغیر نہ کی جائے اور ہر ملاقات میں دفتر خارجہ کا ایک نمائندہ بھی شرکت کرے گا۔
وزرا اور غیر ملکی سفیروں کی ملاقاتوں کے پروٹوکولز کیا ہیں؟
سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہر ملک کی سفارت کاری کا ایک اصول ہوتا ہے کہ سفیروں کی کابینہ ارکان سے ملاقات دفتر خارجہ کے توسط سے ہی طے کی جاتی ہے اور ماضی میں اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جاتا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 'گذشتہ 15 برسوں سے اس پروٹوکول کو مکمل طور پر انداز کیا جاتا رہا، اب حکومت یہ چاہ رہی ہوگی کہ اس پروٹوکول پر عملدرآمد کروایا جائے۔‘
انہوں نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ 'ایک بڑے ملک کے سفیر وزیراعظم سے ملاقات کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا تھا لیکن وزیراعظم کی مصروفیات کے باعث دفتر خارجہ نے معذرت کر لی اور اسی طرح ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ایک غیر ملکی سفیر نے 12 افراد کو عشائیہ پر مدعو کیا جس میں 10 وفاقی کابینہ کے ارکان شامل تھے۔‘
پروٹوکول پر عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے کہا کہ 'وزیروں کے جتھے جب سفیروں سے دھڑلے سے ملاقاتیں کرتے ہیں یہ تو ایک مذاق بن جاتا ہے، کیونکہ آپ ملک کی نمائندگی کرتے ہیں تو ان معاملات میں خودداری کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
خارجہ امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں ' یہ ایک انتظامی پروٹوکول ہے، لیکن کابینہ ارکان کو اس طرح پابند بنانا اور دفتر خارجہ کے نمائندے کی موجودگی میں ملاقات کرنا کابینہ پرایک قسم کی بداعتمادی بھی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 'اس سے یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے وزیر کوئی اس قسم کی کمٹمنٹ یا بات نہ کر دیں جس سے ملک عالمی سطح پر بدنامی کا سبب بنے یا پھر آپ سمجھتے ہیں کابینہ ارکان میں اتنی اہلیت ہی نہیں اور انہیں دفتر خارجہ کے نمائندے کی موجودگی میں ملاقات کا پابند بنا رہے ہیں۔‘