Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر خواتین کے لیے اصلاحات کرنے پر سعودی عرب کی معترف

نگار جوہر نے کہا کہ ان کے والد آرٹلری آفیسر تھے جنہوں نے انہیں متاثر کیا (فوٹو عرب نیوز)
پاکستان کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے اصلاحات کرنے پر سعودی عرب کی تعریف کی ہے۔
نگار جوہر کا تعلق آرمی میڈیکل کور سے ہے اور پنج پیر ضلع صوابی ان کا آبائی علاقہ ہے۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے کانونٹ گرلز ہائی سکول سے 1978 میں مکمل کی اور 1985 میں آرمی میڈیکل کالج سے گریجوایشن کی اور پھر اسی کالج میں خاتون کمپنی کمانڈر کے طور پر کام کیا۔
وہ پاکستان آرمی کی تاریخ کی پہلی خاتون افسر ہیں جنہیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔
عرب نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر نے مسلمان خواتین کو پیغام دیا ہے کہ وہ خود پر یقین رکھیں کیونکہ وہ ہر شعبے میں ترقی کرسکتی ہیں۔
’میں بہت خوش ہوں کہ سعودی فرمان روا کے قابل تحسین اقدامات کی بدولت خواتین اب ڈرائیونگ کرسکتی ہیں۔ میں حال ہی میں عمرہ ادا کرنے کے لیے گئی تو خواتین ڈرائیورز کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔‘
حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں ہونے والی اصلاحات میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے۔
 مملکت میں ہونے والی کچھ اہم اصلاحات میں یہ بھی شامل تھا کہ قانون میں ایسی تبدیلی کی جائے جس کے تحت مختلف شعبوں میں خواتین کے حقوق زیادہ کیے جائیں اور صنفی برابری کو فروغ دیا جائے۔
نگار جوہر نے کورونا کی وبا کے دوران مدد کرنے پر خلیجی ممالک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب، بحرین، یو اے ای اور قطر نے ہماری بہت مدد کی۔ ہمیں وینٹی لیٹرز، آکسیجن جنریشن پلانٹس دیے گئے۔‘
انہوں نے اپنے کیریئر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اپنا کام جانتے ہیں اور ایک واضح سمت میں سخت محنت کرتے ہیں تو ایسی کوئی وجہ نہیں کہ آپ پیچھے رہ جائیں۔ فوج میں میرٹ کا نظام ہے۔ میری یہاں موجودگی اس کی ایک مثال ہے۔‘

نگار جوہر کا کہنا تھا کہ فوج میں اب خواتین کےلیے زیادہ آپشنز ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

فوج کے لیے جذبے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے والد آرٹلری آفیسر تھے جنہوں نے انہیں متاثر کیا۔
’وہ میرے آئیڈیل تھے۔ میں شروع سے انہیں یونیفارم میں دیکھتی تھی اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں ڈاکٹر بن کر فوج میں جاؤں گی۔‘
لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر نے کہا کہ انہیں قیادت کرنے کا پہلا موقع اس وقت ملا جب انہیں بطور بریگیڈیئر ایک ہسپتال کی کمانڈ کرنے کا کہا گیا۔
’یقینی طور پر یہ ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ خود کو ثابت کرنا تھا۔ پھر آپ ذمہ داری بھی محسوس کرتے ہیں کہ بعد آنے والی خواتین کے لیے آپ کو ایک مثال بننا ہے۔‘
'میری کارکردگی کو پسند کیا گیا اور کورونا کی وبا کے دوران مجھے ملٹری ہاسپٹل راولپنڈی کو ایک ہفتے میں مکمل کورونا سینٹر میں تبدیل کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔'
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کبھی صنفی تعصب کا سامنا کرنا پڑا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔
نگار جوہر نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ فوج میں خواتین کو گائناکالوجسٹ کے علاوہ کسی سپیشلائزیشن کی اجازت نہیں تھی، لیکن اب فوج میں خواتین ہر شعبے میں نظر آتتی ہیں۔

خاتون جنرل کا کہنا تھا کہ ’میں ایک کارڈیالوجسٹ بننا چاہتی تھی، لیکن یہ نہ ہو سکا۔‘ (فوٹو آئی ایس پی آر)

’میں ایک کارڈیالوجسٹ بننا چاہتی تھی، لیکن یہ نہ ہو سکا۔ میری قسمت کچھ اس سے زیادہ اچھا لکھا تھا اور میں آج ایک بہتر جگہ پر بیٹھی ہوں۔‘
خاتون جنرل کا کہنا تھا کہ فوج میں اب خواتین کےلیے زیادہ آپشنز ہیں۔
’فوج کے اندر خواتین تعلیم، کمپیوٹر سائنسز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور آرکیٹیکچر کے شعبوں میں بھی ہیں، لیکن بہت سی ابھی ابتدائی سٹیج پر ہیں اور ان کے رینکس کیپٹن یا میجر تک ہیں۔‘

شیئر: