Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حجاب تنازع، 14 فروری سے کرناٹک میں بند کالج دوبارہ کُھلنے کا امکان

ریاست کرناٹک کے کئی کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف طالبات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین ریاست کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے عندیہ دیا ہے کہ حکومت 14 فروری کو پری یونیورسٹی اور ڈگری کالجوں کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
انڈین نیوز چینل اینڈ ڈی ٹی وی کے مطابق کرناٹک حکومت نے جمعرات کو 14 فروری سے 10 ویں جماعت تک کی کلاسوں کو اور اس کے بعد پری یونیورسٹی اور ڈگری کالجوں کی کلاسوں کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جمعے کو وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ ’ہائی سکول پیر کو دوبارہ شروع ہوں گے اور پیر کی شام وزیراعلیٰ کی طرف سے بلائی جانے والی میٹنگ کے دوران پری یونیورسٹی اور ڈگری کالج کے طلبہ کے لیے جلد از جلد کلاسیں شروع کرنے کے بارے میں فیصلہ لینے کی کوشش کریں گے۔‘
خیال رہے کہ جمعرات کو کرناٹک ہائی کورٹ نے طالبات کے حجاب پہننے کے کیسز کی سماعت کے دوران اپنے عبوری حکم نامے میں ریاستی حکومت سے تمام تعلیمی اداروں کو کھولنے کی درخواست کی اور تمام طالب علموں کو کلاس روم میں زعفرانی شالیں، سکارف، حجاب اور کوئی بھی مذہبی جھنڈا پہننے سے روک دیا۔
کرناٹک میں حجاب کے حق میں اور مخالفت میں ہونے والے مظاہروں کے بعد، جو بعض مقامات پر پرتشدد بھی ہوگئے، جس کے بعد حکومت نے ریاست کے تمام ہائی اسکولوں اور کالجوں میں بدھ سے تین دن کے لیے تعطیل کا اعلان کر دیا۔
دریں اثنا وزیر داخلہ اراگا جانیندرا نے کہا کہ تمام اضلاع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب تعلیمی ادارے دوبارہ کھلیں تو امن و امان برقرار رہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہماری پولیس کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ ہماری پولیس فورس پہلے ہی مختلف ریاستوں میں جا چکی ہے جہاں انتخابات ہو رہے ہیں۔ ہم مزید فورس نہیں بھیج رہے ہیں اور ان کا استعمال مقامی پولیس اور مرکزی فورسز کے ساتھ کیا جائے گا۔‘

کرناٹک ہائی کورٹ نے تمام طالب علموں کو کلاس روم میں زعفرانی شالیں، سکارف، حجاب اور کوئی بھی مذہبی جھنڈا پہننے سے روک دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ ماہ سے ریاست کرناٹک کے کئی کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف طالبات اور انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔
ابتدا میں حجاب کے معاملے پر احتجاج اور مظاہرے اوڈوپی اور اس کے قریبی علاقوں میں دیکھے گئے، تاہم منگل کو یہ مظاہرے شیوا موگا سمیت دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے جہاں زعفرانی مفلر پہننے والے لڑکوں کے ایک گروپ نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے اور رقص کیا۔
دو شہروں ہریراہا اور دیونگیری میں حجاب پہننے والی مظاہرین اور زعفرانی مفلر پہننے والے ہندو انتہا پسندوں کے گروپس کے ایک دوسرے پر پتھراؤ کے بعد ان شہروں میں اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھیوں کا استعمال کیا۔
مندیہ کے ایک کالج میں ایک مسلمان طالبہ مسکان خان کو دیکھ کر زعفرانی رنگ کے مفلر پہننے والے لڑکوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے جبکہ لڑکی نے ان کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔ مسلمان طالبہ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ بلاخوف کالج کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

شیئر: