Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی کے نرخ مزید بڑھانے سے کیا گردشی قرضے کو قابو کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں بجلی بنانے کے لیے نجی پاور پلانٹ کوئلے اور فرنس آئل کا استعمال کرتے ہیں۔ فائل فوٹو
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے صارفین کے لیے بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی نے رواں سال کے اگلے چھ ماہ کے دوران بجلی کی قیمت میں فی یونٹ دو روپے 80 پیسے فی یونٹ اضافے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد بڑھتے گردشی قرضے یا سرکلر ڈیٹ کو قابو میں لانا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضے کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ گردشی قرضوں کو ایک حد میں رکھا جائے۔
ملک میں توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے دو ہزار 476 ارب روپے سے بڑھ گئے ہیں اور کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کی رائے میں بجلی کی قیمت دو روپے 80 پیسے فی یونٹ بڑھانے سے رواں سال 292 ارب روپے صارفین سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں مالیاتی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی خلیق کیانی کے سامنے اردو نیوز نے بجلی کی قیمت میں اضافے سے گردشی قرضے کو قابو کرنے کا سوال رکھا تو انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جتنی بجلی کی قیمت بڑھائیں گے اتنا ہی گردشی قرضہ بڑھے گا۔‘
اس کی وجہ کی وضاحت کرتے ہوئے خلیق کیانی نے بتایا کہ بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کی چوری بھی بڑھتی ہے اور دوسری جانب بہت سے صارفین توانائی کے متبادل ذرائع کا رخ کرتے ہیں۔
جولائی 2021 تا جون 2023 تک کے نظرثانی شدہ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان کی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی منظوری دے چکی ہے۔  
اس پلان کے مطابق رواں سال بجلی کی قیمت میں اضافہ دو مراحل میں کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں رواں ماہ قیمت میں 63 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا جبکہ جولائی میں دو روپے 17 پیسے فی یونٹ قیمت بڑھائی جائے گی۔

پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے بل کی سو فیصد وصولی نہیں ہو پاتی۔ فائل فوٹو

خلیق کیانی کے مطابق ماضی قریب میں بھی بجلی کی قیمت بڑھانے سےگردشی قرضوں پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا اور اس میں ماہانہ 30 تا 32 ارب روپے اضافہ ہو رہا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے منسلک سینیئر صحافی شہباز رانا کی رائے میںگردشی قرضوں کو قابو میں لانے کے لیے بجلی کی قیمت بڑھانا حل نہیں۔
’گزشتہ ایک برس کا تجربہ بتاتا ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ دس ماہ میں بجلی کی قیمت میں چار روپے 56 پیسے اضافے کے باوجود گردشی قرضہ بڑھا ہے کم نہیں ہوا۔‘
شہباز رانا کہتے ہیں کہ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ گردشی قرضوں کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا وہ اس سے 448 ارب روپے زیادہ ہوگا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاور ٹیرف میں اضافہ مسئلے کا حل نہیں۔
سینیئر صحافی خالد مصطفیٰ کے مطابق پاکستان میں بجلی بنانے کے لیے کوئلہ، ڈیزل، ایل این جی اور فرنس آئل استعمال ہوتا ہے۔ یہ خام مال بیرون سے منگوایا جاتا ہے جو مہنگا ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ صارفین سے استعمال کی گئی بجلی کے بلوں کی مکمل قیمت وصول نہ کرنا اور بند پاور پلانٹس کو بھی کیپیسٹی پیمنٹ ہے جو معاہدوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں دہائیوں سے بجلی کی چوری ایک بڑے مسئلے کے طور موجود ہے۔ فائل فوٹو

’بجلی کا بنیادی ٹیرف اس وقت بھی 16 روپے فی یونٹ سے زیادہ ہے اور اس کو جتنا مرضی بڑھا دیں گردشی قرضہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘

گردشی قرضہ کیا ہوتا ہے؟

پاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے سے مراد وہ رقم ہے جو بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں یا کارخانوں کو حکومت نے بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے وصول کر کے فراہم کرنی ہے مگر وہ پوری طرح ادائیگی نہیں کر پاتی۔
ماہرین کے مطابق ملک میں جتنی مالیت کی بجلی پیدا کر کے صارفین کو فراہم کی جا رہی ہے اتنی رقم وصول نہیں کی جا رہی اور اس کی وجہ بجلی کی چوری، بجلی کی ترسیل کا پرانا اور بوسیدہ نظام ہے جس کی وجہ سے لائن لاسز ہوتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ناقص کارکردگی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
پاکستان میں بجلی کی پیداوار اب زیادہ تر نجی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے جو فرنس آئل سے پاور پلانٹس چلاتے ہیں۔ یہ فرنس آئل پاکستان سٹیٹ آئل اور بعض دیگر کمپنیاں درآمد کرتی ہیں اور ان کو ادائیگی صارفین سے وصولی پر کی جاتی ہے۔
جب بجلی صارفین تک پہنچانے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بلوں کی صورت میں رقم وصول کر کے پاور جنریشن کمپنیوں تک نہیں پہنچا پاتیں اور وہاں سے فرنس آئل درآمد کرنے والے پاکستان سٹیٹ آئل کو ادائیگی نہیں ہوتی تو حکومت کمرشل بینکوں سے قرض لے کر فرق کو کم کرتی ہے۔
یہ قرض ان فریقین کے درمیان گھومتا رہتا ہے اس لیے گردشی قرضہ کہلاتا ہے۔

شیئر: